نااہل شخص ممبراسمبلی نہیں بن سکتا تو پارٹی سربراہ کیسے بن سکتا ہے۔ سپریم کورٹ
انتخابی اصلاحات ایکٹ دوہزارسترہ کیخلاف درخواستوں پر سماعت میں مسلم لیگ ن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے کہ سیاسی جماعت کو اپنا سربراہ مقرر کرنے کی اجازت ہے۔ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کا اثر محدود ہے۔ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کا اطلاق آراکین اسمبلی پر ہوتا ہے۔ آرٹیکل باسٹھ کے تحت رکن اسمبلی بننے پر قدغن ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ڈیکلئیر کر دیا کہ نااہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا۔ اگر قانون کالعدم ہو جاتا ہے تو سینیٹ الیکشن کے ٹکٹ کا کیا ہوگا۔ کیا قانون کالعدم ہونے پر واک اوور ہوگا یا سینٹ کا الیکشن دوبارہ ہوگا۔ جب بنیاد ختم ہوجائے تو اس پر کھڑا ڈھانچہ بھی گر جاتا ہے۔ آپ کو ان تمام سوالات کے جوابات دینا ہوں گے۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی سیاسی جماعت کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعت سربراہ کے گرد گھومتی ہے۔ سیاسی جماعت کا سربراہ پارلیمنٹرین کو کنٹرول کرتا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پارٹی سربراہ کسی رکن کو براے راست نااہل نہیں کرسکتا۔ الیکشن کمیشن نےمیرٹ پر نااہلی کے معاملے کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اصل فیصلہ تو پارٹی سربراہ نے ہی کرنا ہوتا ہے۔ اگر نااہل شخص ممبراسمبلی نہیں بن سکتا تو پارٹی سربراہ کیسے بن سکتا ہے۔ کیا سنگین جرائم میں سزاپانے والا شخص پارٹی سربراہ بن سکتا ہے۔ جسٹس عمرعطا بندیال یہ کوئی بنانا ری پبلک نہیں ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پارٹی چاہے تو ایسے شخص پر قدغن لگا سکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن سے سیاسی پارٹیوں کا ریکارڈ منگوایا ہے۔ دیکھنا ہے پارٹی ٹکٹ کون جاری کرتا ہے۔ دیکھنا ہے سینٹ الیکشن میں ٹکٹ کس نے جاری کیے۔