مظفرگڑھ جیسے گرم ترین علاقہ میں کاشت کرکے مقامی کاشتکاروں نے ناممکن کو ممکن کردکھایا
سٹابری کو سرد علاقوں میں کاشت کیا جانے والا پھل کہا جاتا تھا لیکن اب مظفرگڑھ جیسے گرم علاقوں میں بھی کاشت کیا جانے لگا ہے۔۔ دریا چناب کے علاقہ اور ٹھٹھہ قریشی میں کثیر رقبہ پر سٹابری کاشت کی جا رہی ہے۔سوات سے لائے جانے 60 سے 70پودے ایک ایکڑ میں لگائے گئے ہیں۔ اکتوبر کے شروع میں کاشت کیے جانے والے پودوں پر تین ماہ بعد پھل لگنا شروع ہوتا ہے۔ ہفتے میں دو سے تین مرتبہ پانی اور سنڈیوں سے بچاؤ کے لیے تین مرتبہ ہی کھاد ڈالی جاتی ہے۔ کاشتکاروں کے مطابق سٹابری کی ایک ایکٹر کاشت پر تین لاکھ سے زائد لاگت آتی ہے۔سٹابری کی قابل ذکر اقسام کرونا اور سرائی ہیں۔۔ گرمی کی تپش سٹابری کیلئے خطرے کا باعث ہوتی ہے۔۔ گیدڑوں کی جانب سے بھی حملے کا خطرہ رہتا ہے۔ کھیتوں کے چاروں اطراف جال کی باڑ لگائی جاتی ہے۔مظفرگڑھ میں کاشت کی جانے والی سٹابری کی روزانہ کی بنیاد پر چنائی کی جاتی ہے پھر اسے گچھیوں کی حالت میں ٹوکریوں میں پیک کر کے کراچی، حیدرآباد، لاہور، فیصل آباد اور ملتان کی منڈیوں میں فروخت کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ مقامی سطح پر محکمہ زراعت کی جانب سے کاشتکاروں کی رہنمائی اور تربیت کی جائے تو آم کی طرح سٹابری بھی دنیا میں مظفرگڑھ کی پہچان بن سکتی ہے۔