ترکی میں ناکام بغاوت کو ایک سال مکمل ہو گیا
پندرہ جولائی دوہزار سولہ کا وہ تاریخ ساز دن جب ترک عوام فوجی بغاوت کے سامنے ڈٹ گئے، نلاکام فوجی بغاوت کے دوران ترک پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا، بمباری، شیلنگ اور فائرنگ کے واقعات بھی دیکھنے کو ملے، مسلح، خونی بغاوت میں 180 کے قریب ترک شہریوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ترک صدر رجب طیب اردوان کی ایک اپیل پر بہادر اور نڈر ترک عوام نے سڑکوں پر نکل کر اس فوجی بغاوت کو ناکام بنایا، دنیا نے یہ مناظر بھی دیکھے کہ باسفورس کا وہ پل جہاں فائرنگ کرکے نہتے شہریوں کو شہید کیا گیا تھا ،ٹھیک اُس ہی مقام پر باغی فوجیوں نے پولیس کے آگے ہتھیار ڈالے۔
ترک حکومت اس فوجی بغاوت کا الزام امریکا میں مقیم فتح اللہ گولن پر عائد کرتی ہے، صدر اردوان کا موقف تھا کہ امریکا کی پشت پناہی میں فتح اللہ گولن نے جمہوری حکومت کے خلاف سازش کی
ترک حکومت نے بغاوت پر قابو پاکر ایمرجنسی نافذ کی تھی جو آج بھی برقرار ہے، فوجیوں اور ججز سمیت پچاس ہزار کے قریب افراد کو حراست میں لیا گیا، مختلف شعبوں میں کام کررہے ایک لاکھ افراد کو بغاوت کا حصہ بننے کے شبے میں ملازمت سے برطرف بھی کیا گیا، سینکڑوں ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کے رینک میں بھی تنزلی کی جاچکی ہے،،