سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کا والیم 10 کھلوا لیا۔
پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران سلمان اکرم راجا نے دلائل میں کہا کہ عدالت میں نیلسن اور نیسکول ٹرسٹ ڈیڈ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں یہ جعلسازی کا کیس ہے، یہ صرف ایک کلریکل غلطی تھی اکرم شیخ کے چیمبر سے ہوئی، جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دئیے کہ یہ تو ہم بھی دیکھ سکتے ہیں کہ دستخط کیسے مختلف ہیں، مسئلہ صرف فونٹ کا رہ گیا ہے،،، سماعت کے دوران عملدرآمد بنچ نے والیم ٹین بھی کھلوا لیا، جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ والیم 10 سے بہت سی چیزیں واضح ہوجائیں گی، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کیا ان میں سے کوئی متعلقہ نوٹری پبلک کی تفصیل ہے، ان دستاویزات پر کسی کے دستخط بھی نہیں، جس لا فرم کی دستاویزات آپ پیش کر رہے ہیں وہ تصدیق شدہ نہیں، عدالت نے خواجہ حارث کو والیم 10 کی مخصوص دستاویز پڑھنے کو دیں،، جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریفرنس نیب کو بھجوا دیا جائے،،، یہاں معاملہ عوامی عہدہ رکھنے والے کا ہے، وہ اپنے عہدے کے باعث جواب دہ ہیں، عوامی عہدہ رکھنے والوں کی آمدن اثاثوں کے مطابق نہ ہو تو کیا ہوگا، وزیراعظم نے مشکوک دستاویزات سپیکر کو دیں، ہم ایک سال سے ان ثبوتوں کا انتظار کررہے ہیں، اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ گوشواروں میں ملکیت کا ذکر نہیں تو عوامی نمائندگی ایکٹ لاگو ہو گا۔
اسحاق ڈار کی جانب سے 34 سالہ ٹیکس ریکارڈ عدالت میں جمع کروایا گیا، عدالت کا کہنا تھا کہ اتنا بڑا ڈبہ لانے کا مقصد کیا ہے، یہ ڈبہ اب سارا دن ٹی وی کی زینت بنے گا۔ وکیل طارق حسن کا کہنا ریکارڈ کے بغیر جے آئی ٹی کیسے اسحاق ڈار کے خلاف کسی نتیجے پہ پہنچ سکتی ہے؟ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے جو کیا وہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے باعث کیا۔
کیا آپ ماضی کی طرح ایک بار پھر شریف خاندان کے خلاف دوبارہ گواہ بننا چاہتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ فریقین ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں جو مرضی کہیں ہمیں کچھ نہ کہیں۔، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دئیے کہ اس وقت تک کیس سنیں گے جب تک کہ آپ تھک نہ جائیں، جس چیز کی آئین اور قانون نے اجازت نہیں دی وہ نہیں کریں گے۔