مسلم لیگ ن نے نواز شریف کو پارٹی صدارت سے روکنے کی کوشش ناکام بنا دی
قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا۔۔ پیپلزپارٹی کے نوید قمر نے انتخابات ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا۔۔ بل کے تحت نااہل شخص کو پارٹی کی صدارت کے لیے نااہل قرار دینا تھا۔۔ بل پر بحث کرتے ہوئے نوید قمر نے کہا کہ نااہل شخص کا پارٹی سربراہ بننا آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کیخلاف ہے, بل مسترد ہوا تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جائے گا, شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومتی بینچوں پر سکتہ کیوں طاری ہے۔۔ آج کون سا تجسس ارکان کو ایوان میں لے آیا۔۔ اہم معاملات پر قانون سازی کے دوران تو ارکان نظر نہیں آتے, انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 62 پر پورا نہ اترنے والا شخص پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا, جو شخص صادق اور امین نہیں وہ پارٹی کا سربراہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔ ایک شخص کو نوازنے کے لیے کی جانے والی قانون سازی نہیں مانتے۔۔ کیا آپ اپنے بھائی یا چودھری نثار جیسے سینئر پارلیمنٹیرین پر بھی اعتماد نہیں کر سکتے۔۔ وزیر قانون زاہد حامد نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ جنرل ایوب کے دور میں نافذ کیا گیا، بھٹو کی حکومت نے 1975 میں اس شق کو نکالا، لیکن پرویز مشرف نے دو ہزار میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو سیاست سے باہر کرنے کیلئے ترمیم کی۔۔ وزیرقانون نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ایک شخص کو بچانے کے لیے یہ ترمیم لائی گئی ہے۔۔ انہوں نے کہا کہ اس بل پر نومبر دو ہزار چودہ سے کام ہو رہا تھا اس وقت پاناما کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔۔ زاہد حامد نے سب کمیٹی کا ذکر کیا جس میں اپوزیشن ارکان بھی شامل تھے شازیہ مری اور عارف علوی نے وزیرقانون کے ریمارکس پر اعتراض کیا۔۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے زاہد حامد کے خطاب پر ردعمل میں کہا کہ انہیں وزیر قانون پر ترس آرہا ہے جس شق کو نکالنے کی یہ بات کر رہے ہیں یہ انہوں نے خود بطور وزیر قانون مشرف دور میں شامل کی تھی, بعد میں بل پر ووٹنگ کرائی گئی, بل کے حق میں اٹھانوے اور مخالفت میں ایک سو تریسٹھ ووٹ آئے, اس طرح بل کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا