پاناما لیکس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ نے شریف فیملی کی العزیزیہ سٹیل مل کے قیام پر کئی سوالات اٹھادیے ہیں
جے آئی ٹی کی سپریم کورٹ میں پیش کی جانیوالی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پیشیوں کے دوارن حسین نواز نے العزیزیہ سٹیل کے قیام کے حوالے سے میمورنڈمبینک قرضہ جات کے کاغذات اور فنانشل سٹیٹمنٹس پیش نہیں کرسکےاپنی پیشیوں کے دوران حسین نواز نے بتایا کہ العزیزیہ مل کے قیام کیلئے چند سو ہزار ڈالرز خرچ کئے تاہم بار بار سوالات کے بعد بھی انہوں نے مکمل اعدادوشمار نہیں بتائے،،حسین نواز کے بیان کے مطابق زمین کی خریداری کیلئے اعشاریہ پینسٹھ ملین ڈالرز،،بنیادی سرمایہ کاری کیلئے پانچ اعشاریہ تین ملین دالرز سمیت مل کے قیام کے لئے مجموعی طور پر چھ ملین ڈالرز خرچ کئے گئے،،حسین نواز کے جے آئی ٹی کو دئیے گئے بیانات کے مطابق مل کے قیام کے لئے قطری ایڈجسٹمنٹ کے زریعے،،اعشاریہ پینسٹھ ملیں ڈالرز جبکہ ایک سعودی دوست سے اعشاریہ آٹھ ملین دالرز حاصل کئے گئے،،ان دونوں رقوم کے حوالے سے جے آئی ٹی کو کوئی متعلقہ دستاویزات فراہم نہیں کی گئیںجے آئی ٹی کے مطابق العزیزیہ کے قیام کے لئے حاصل کی گئی رقم اور خرچ کی گئی رقم میں چار اعشاریہ پچپن ملین ڈالرز کا فرق ہے جس کی وضاحت نہیں کی گئی
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی پانامالیکس پر رپورٹ میں حسین نواز اور ان کی مل ہل میٹل کی جانب سے نوازشریف کو بھجوائے جانیوالی بطور تحفہ رقوم پر کئی سوالات اٹھائے ہیں،،رپورٹ کے مطابق دوہزار دس سے پندرہ کے دوران ہل میٹل کا اٹھاسی فیصد منافع نوازشریف کو بطور تحفہ بھجوایا گیا
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق دو ہزار دس سے دوہزار پندرہ کے چھ سالوں کے دوران ہل میٹل نے نناوے لاکھ ستتر ہزار آٹھ سو بیاسی ڈالرز کا منافع کمایا جس میں سے چالیس لاکھ بیالیس ہزار چھ سو تین ڈالرز کی رقم ہل میٹل کے اکاؤنٹ سے نوازشریف کو بھجوائی گئی جبکہ اسی مدت کے دوران حسین نواز نے اپنے والد کو سنتالیس لاکھ سترہ ہزار پانچ سو پچیس امریکی ڈالرز بھجوائے گئے،،یوں دوہزار دس سے پندرہ کے دوران نوازشریف نے ہل میٹل اور حسین نواز سے نواسی لاکھ تیرہ ہزار تین سو ایک ڈالرز بطور تحفہ وصول کئے جو ہل میٹل کے مجموعی منافع کا اٹھاسی فیصد بنتا ہے،، جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق حسین نواز نے دو ہزار آٹھ اور نو کے دوران مریم صفدر کو بھی رقوم بطور تحفہ بھجوائیں
جے آئی ٹی کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے انکے سامنے اپنے خالو کو پہچاننے سے انکار کردیا۔ شریف خاندان کی جائیداد میں لندن فلیٹس کا ذکر نہیں۔وزیراعظم نے کہا انہیں لندن فلیٹس کے مالک کا بھی پتہ نہیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نوازشریف کی جائیداد انکی بتائی گئی آمدنی سے زیادہ ہے۔ وزیراعظم نے قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب میں جھوٹ بولا۔ قطری سرمایہ کاری کے سوال پر نوازشریف نے بطور وزیراعظم انکے سوالات کے جوابات نہ دینے کا استحقاق استعمال کیا۔ رپورٹ کے مطابق نوازشریف نے اپنے خالو مسٹرحسین کو بھی پہچاننے سے انکار کیا جو گلف سٹیل ملزمیں پارٹنر تھے۔ العزیزیہ سٹیل مل کی مالی تقسیم کے حوالے سے نوازشریف کا بیان حسین نواز اور شہبازشریف کے بیان سے مختلف ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے قطری شہزادے کے خطوط کو نہیں پڑھا۔ جے آئی ٹی کے باربار سوال پر نوازشریف نے خطوط کو دیکھنے کا اقرار کرلیا۔ جب نوازشریف سے سوال کیا گیا کہ لندن فلیٹس کا اصلی مالک کون ہے حسن یا حسین نواز تو نوازشریف نے جواب دیا کہ انکے پاس مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں۔ نوازشریف نے شریف خاندان کی تقسیم جائیداد کے حوالے سے دستاویزات کو درست کہا لیکن ان میں کسی جگہ بھی لندن فلیٹس کا ذکر نہیں۔ رپورٹ کے مطابق نوازشریف نے لندن فلیٹس سے متعلق حسین نواز اور مریم نواز کے درمیان دستخط ہونیوالی کسی بھی ٹرسٹ ڈیڈ سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ جے آئی ٹی نے نوازشریف سے نیب کیس میں رمضان شوگرمل کے ذریعے 110 ملین کی رقم بطورسیٹلمنٹ کا پوچھا لیکن ان کے پاس اسکا کوئی جواز نہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق نوازشریف نے کئی مقامات پر انہیں گمراہ کیا اور حقائق چھپائے۔
طارق شفیع نے گلف اسٹیل ملز کے بارے میں جے آئی ٹی کے سامنے جھوٹ بولا اور غلط دستاویزات پیش کیں۔ بیان دیا گلف اسٹیل ملز بنک قرضے سے بنائی لیکن کوئی ثبوت نہ دیا۔ بیرون ملک رقوم منتقلی کے حوالے سے غلط معلومات دینے کا بھی اقرار کیا۔ اسٹیل ملز کی فروخت کے حوالے سے کوئی دستاویزات نہ دے سکے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کے کزن طارق شفیع نے انہیں گمراہ کیا اور گلف اسٹیل ملز کی ٹیمپرشدہ دستاویزات پیش کیں۔ طارق شفیع 1973 نہیں 1974 میں دبئی گئے تھے۔ طارق شفیع شہبازشریف کی کمپنی کا منیجر ہونے کا ثبوت بھی فراہم نہ کرسکے۔ طارق شفیع نے جےآئی ٹی میں دعویٰ کیا کہ میاں شریف گلف اسٹیل ملزکے اکلوتے مالک تھے۔ محمدحسین کو میاں شریف نے گلف اسٹیل ملز میں پارٹنرشپ دی لیکن کوئی ثبوت پیش نہ کیا۔ طارق شفیع کے مطابق وہ کبھی محمدحسین سےنہیں ملے۔ محمدحسین گلف اسٹیل ملز کے قیام کے کچھ عرصہ بعد وفات پاگئے لیکن تصدیق پر معلوم ہوا کہ جس سال گلف اسٹیل ملز قائم ہوئی محمدحسین کا انتقال بھی اسی سال ہوا۔ طارق شفیع کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ انہیں سکسیشن لیٹر کس طرح ملا۔ طارق شفیع نےجے آئی ٹی کو بتایا کہ گلف اسٹیل ملزبینک سے قرض لیکر قائم کی لیکن کوئی ثبوت نہ دیا۔ طارق شفیع نےاقرارکیا کہ بیرون ملک منتقل کی گئی رقم سےمتعلق بیان حلفی میں موجود معلومات درست نہیں۔ طارق شفیع نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ گلف اسٹیل ملزکے75فیصد حصص عبداللہ اہلی کو فروخت کردیےتھے۔ ان75فیصد حصص میں محمد حسین کا بھی حصہ تھا۔ طارق شفیع نے بتایا کہ میاں شریف نے 1980میں بقایا25فیصد شیئرز بھی بارہ ملین درہم میں عبداللہ اہلی کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ طارق شفیع کےمطابق 12ملین درہم کی 6اقساط میں ادائیگی کا معاہدہ ہوا۔ جب طارق شفیع سے جے آئی ٹی نے سوال کیا کہ کیا آپکے پاس کسی قسم کی کوئی رسید موجود ہے تو انکے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ طارق شفیع عبداللہ اہلی کی جانب سے بارہ ملین درہم کی ادائیگی کا معاہدہ بھی پیش نہ کر سکے۔ طارق شفیع کے مطابق میاں شریف کی ہدایت پر بارہ ملین درہم کی ادائیگی قطری شہزادے فہد بن جاسم بن جابر التہانی کو قسطوں کی صورت میں کی گئی۔ ہرباران کا مختلف نمائندہ قسط وصول کرنے آتا تھا۔ طارق شفیع کے مطابق انکی قطری شہزادے سے کبھی ملاقات ہوئی نہ وہ رقم وصول کرنے والے نمائندوں کو جانتے ہیں۔ جے آئی ٹی نے رپورٹ کے آخرمیں قطری شہزادے کو رقم کی ادائیگی من گھڑت کہانی قراردی۔