سانحہ ماڈل ٹاؤن جس کو تاریخ کبھی نہ بھلا سکی۔
سترہ جون 2014 کو صبح دو بجے پنجاب پولیس نے ماڈل ٹاؤن میں طاہر القادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ کے باہر موجود رکاوٹوں کو ہٹانے کیلئے آپریشن کیا، بارہ تھانوں کی پولیس رات دو بجے پاکستان عوامی تحریک کے صدر مقام پہنچی اور بلڈوزرز کی مدد سے رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی، کارکن مشتعل ہو گئے، پھر ایسا تصادم شروع ہوا جو آج تک کوئی نہ بھلا سکا، لاٹھی چارج شروع ہوا، گولیاں چلیں، آنسو گیس کی شیلنگ اور پتھراؤ ہوا، فائرنگ ہوئی تو دو خواتین سمیت چودہ افراد جان سے چلے گئے، میڈیا پر بھی اس آپریشن کی بھرپور کوریج کی گئی، یہ آپریشن تیرہ گھنٹے چلتا رہا، جہاں ایک طرف پولیس کا آپریشن جاری تھا وہیں سادہ لباس شخص گلو بٹ بھی توجہ کا مرکز بنا رہا جو گاڑیوں کے شیشے اور دکانوں سے لوٹ ماٹ کرتا دکھائی دیا، سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے تناظر میں 21 جون کو وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبائی وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ سے استعفی لے لیا۔ اسی طرح پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو بھی ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ 19 جون کو اس سانحہ کا مقدمہ ایس ایچ او کی مدعیت میں تھانہ فیصل ٹاؤن میں درج کر لیا گیا، پورے کیس میں واحد گلو بٹ ہی تھا جسے سزا بھگتنا پڑی، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے حکم پر تحقیقات کے لیے جسٹس باقر علی نجفی پر مشتمل یک رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا۔ جوڈیشل کمشین رپورٹ کو منظر عام پر نہ لایا گیا، جس کے خلاف دوبارہ عدالت سے رجوع کیا گیا، طاہر القادری اس تمام تر کارروائی میں عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کرتے رہے