سپریم کورٹ،توہین عدالت قانون،پارلیمنٹ آئین سازی کرے، عدلیہ تشریح کرے گی۔این آراو عملدرآمد کیس میں ایک وزیراعظم کو سزا ہوئی،دوسرے کو کیسے چھوڑ دیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری
چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربینچ نے توہین عدالت قانون دوہزاربارہ کے خلاف دائردرخواستوں کی سماعت کی۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے ریمارکس میں کہا کہ نئے قانون میں درجہ بندی ہے، نیا قانون کہتا ہے کہ غریب کوجیل بھجوادوجبکہ وزیراعظم کوچھوڑدیا جائے، این آراوفیصلے پرعمل درآمد کی وجہ سے ایک وزیراعظم کوسزاہوئی تودوسرے کوکیسے معاف کردیں، وفاق کے وکیل عبدالشکورپراچہ نے دوسرے روز بھی اپنے دلائل میں کہا کہ قانون بنانا پارلیمنٹ کا اختیا ر ہے،توہین عدالت کے قانون کی شق دو سو چار میں توہین عدالت کی تعریف نہیں کی گئی، اس آرٹیکل میں صرف عدلیہ کےاختیارات کا ذکرہے،ارکان پارلیمنٹ کوایوان میں کی گئی تمام باتوں پر استثنیٰ حاصل ہے، پارلیمنٹ کے اقدام کو بد نیتی قراردینا عوام کو بد نیت قرار دینے کے مترادف ہے جبکہ قانون میں مناسب تفریق ھوسکتی ہے۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس قانون کے خلاف تقریر کرنے پر اعتزازاحسن اور رضا ربانی کی تعریف کی جانی چاھئیے ،کوئی بھی جج سزا اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لئے نہیں دیتا بلکہ عدلیہ کے وقاراور تحفظ کے لئے سزا دی جاتی ہے، پارلیمنٹ قانون بنائے گی تو سپریم کورٹ اس کی تشریح کرنے کا حق رکھتی ہے،اگر کوئی رکن پارلیمنٹ توھین عدالت کر تا ہے تو اسپیکر اور سینٹ چیئر مین اس کی نااہلی کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجنے کا پابند ہے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ھم پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتے ہیں لیکن سادہ اکثریت سے آئین میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔عدالت نے وفاق کے وکیل کی جانب سے دلائل مکمل کئے جانے کے بعد سماعت کل تک ملتوی کر دی۔