سپریم کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس میں خفیہ ایجنسیز کو پولیس سے تعاون اور گواہوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیدیا
سپریم کورٹ میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا راؤ انوار نے فرار کیلئے نجی جہاز استعمال کیا۔ ڈی جی سول ایوی ایشن نے آگاہ کیا کہ تمام نجی طیاروں کے مالکان نے بیان حلفی جمع کروا دییے ہیں۔ صرف تین ذاتی جہازوں کی فلائٹس بیرون ملک گئیں۔ پائلٹس کی ڈگریوں کی سکروٹنی رپورٹ ایک ماہ میں ملے گی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق راؤ انوار ملک سے باہر نہیں گئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جن ہر حفاظت کی ذمہ داری تھی ان پرقتل کا الزام ہے۔ راوانوار کاسروس پروفائل مہیا کریں۔ آئی جی سندھ نے عدالت عظمی کو کیس پر پیش رفت سے آگاہ کیا جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی باتیں ناول لگتی ہیں۔ راؤ انوار کو پاکستان چھوڑنے اور چھپنے کا موقع کیوں دیا۔ راو انوار عدالت کی حفاظت میں آجائیں۔ ایسا نہ ہو کل عدالت کی حفاظت میں آنے کے قابل بھی نہ رہے۔ آئی جی سندھ نے چیف جسٹس کوراؤ انوار کے اقامہ کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ نقیب اللہ کے والد کے خط کے جواب میں چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فکرنہ کریں دل آپ کے لیے دھڑکتے ہیں۔ کسی دن فاٹا میں عدالت لگا سکتا ہوں۔ عدالت نے خفیہ ایجنسیز کو پولیس سے تعاون اور گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے راوانوار کا پیغام میڈیا پر چلانے پر پابندی لگادی۔ کیس کی مزید سماعت تیرہ فروی کو ہوگی