نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔سردار مسعود خان
صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ آزادکشمیر میں نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے جہاں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کر سکتے ہیں وہاں اپنے ذاتی کاروبار شروع کر کے روزگار کے مواقع حاصل کر سکتے ہیں ،پڑھے لکھے نوجوان سرکاری ملازمتوں کی تلاش کے بجائے کاروبارپر توجہ دیں ،ان خیالات کا اظہار انہوں نے یوتھ لیڈرز انڈسٹریلسٹ انیق اعوان و دیگر جنہوں نے ان سے ملاقات کی سے گفتگوکرتے ہوئے کیا ،صدر آزادکشمیر نے کہا کہ کسی بھی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشرے میں نوجوانوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ نوجوان کی سمت کی بدولت ہی کوئی بھی ملک ترقی اور زوال کی منازل طے کرتا ہے اگر نوجوانوں کاکردار معاشرے میں مثبت ہوگا تو یقیناًمعاشرہ ترقی کی طرف سفر کرے گا لیکن اگر یہی نوجوان منفی رجحانات کی طرف راغب ہونگے تو معاشرے کی زوال کی طرف سفر کرے گا، اس موقع پر ان کے ہمراہ سٹیٹ یوتھ اسمبلی کے بانی سمیع اللہ عباسی سبین فاروق سدوزئی راجہ ابوبکر فاروق اور ماہ نور قریشی سمیت دیگر نوجوانوں بھی موجود تھے ،نوجوانوں کے وفد نے صدر آذادجموں و کشمیر کو نوجوانوں اور بالخصوص بزنس کمیونٹی کے مسائل سے آگاہ کیا،اس موقع پر صدر ریاست کا کہنا تھا کہ نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں،میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انیق اعوان نے کہا کہ صدر آذادجموں و کشمیر سے یوتھ کے نمائندگان کی ملاقات اہمیت کی حامل تھی صدر ریاست نے اپنے تجربات کی روشنی میں یوتھ لیڈر کی راہنمائی کی،انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی 60فیصد سے زائد آبادی (یوتھ) نو جوانوں پر مشتمل ہے، قیام پاکستان سے لیکر 74 سال گزر جانے کے باوجود ہر دور میں نوجوانوں کا کردار اہمیت کا حامل رہاہے۔ قیام پاکستان کے وقت بانی پاکستان کے دست و بازو وہ طلباء تنظمیوں کے نوجوان ہی تھے جنہیں قائداعظم اپنا فخر اور اپنا اثاثہ سمجھا کرتے تھے آج کا دور علم کی ترقی اور عروج کا دور ہے، طلباء کو نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے تا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسری سرگرمیوں میں بھی پیچھے نہ رہیں تعمیر وترقی علم کے مرہون منت ہے اور کوئی قوم علم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔طلباء اور نوجوان ملک کو سرمایہ ہیں،طلباء ملک کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنے کاعہد کریں۔انہو ں نے اس موقع پر نوجوانوں کے نام خصوصی پیغام میں کہا کہ مایوسی اور ناامیدی قطعی ہمارا مقدر نہیں، امید کا دیا جلتا رہنا ہی زندگی کی علامت ہے۔ آج کے اس گھٹن زدہ ماحول میں بھی ہم ارفع کریم اور علی معین نوازش جیسے نوجوان معاشرے کو سونپ رہے ہیں تو یقیناًابھی راکھ کے ڈھیر میں کچھ چنگاریاں خوابیدہ ہیں انہوں نے کہا کہ نوجوان کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔ نوجوان ہمارے ملک کا ستون اور مستقبل ہیں۔جدید معاشرے میں سب سے پہلے نوجوان نسل کا بنیادی کام ملک کے اہل شہری بننا ہے جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔ جو شخص بڑھنے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے اسے ہمیشہ خود ارادیت کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنے راستے کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی بنا پر، وقت گزرنے کے ساتھ، وہ سمجھتا ہے کہ وہ معاشرے میں کیا کردار ادا کرے گا۔ ہر ایک کو اپنے ملک کو بہتر بنانے اور لوگوں کی مدد کے لئے اپنا ہدف مقرر کرنا چاہئے۔ اس سے ریاست کو مضبوط اور بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ جدید معاشرے میں نوجوانوں کا معاشرتی کردار قائم معیارات کی ترقی اور تبدیلی ہے۔ پرانی نسل زیادہ تر قدامت پسند ہے۔ لوگ تکنیکی سامان یا ان کے خیالات میں سے کسی کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ نوجوان ان تبدیلیوں کو قدرتی اور انتہائی منطقی سمجھتے ہیں۔ شاگرد، طلباء اور فارغ التحصیل نیا علم حاصل کرنے پر خوش ہیں اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے جلدی میں ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانا نوجوان نسل کا اصل مقصد ہے۔ ہر ایک خود احساس کے لئے کوشاں ہے۔ وہ ایسا کیوں کررہا ہے انہوں نے کہا کہ جدید معاشرے میں اپنا مقام اور کردار تلاش کرنا۔ نوجوان دنیا میں کچھ نیا لانے، کچھ ایجاد کرنے یا کسی چیز کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔