سپریم کورٹ: ریکوڈک صدارتی ریفرنس پر عدالتی معاونین مقرر، بلوچستان ہائیکورٹ بار کو نوٹس

سپریم کورٹ نے ریکوڈک معاہدے کے حوالے سے شفافیت پر زور دیتے ہوئے صدارتی ریفرنس پر تین ماہرین قانون کو عدالتی معاونین مقرر کردیا اور بلوچستان ہائی کورٹ بار کو بھی نوٹس جاری کردیا۔چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت سماعت کی۔
سپریم کورٹ کے لارجربینچ کے سامنے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے اپنے دلائل جاری رکھا اور کہا کہ عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ رولز میں نرمی خلاف قانون کی گئی اور ایک بین الاقوامی کمپنی کے لیے رولز میں نرمی کا اختیار نہیں تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اب بھی رولز وہی ہیں یا ترمیم ہوچکی ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکوڈک سے متعلق قانون میں ترمیم ہوچکی ہے اور نئے قانون کے مطابق حکومت رولز میں ترمیم کر سکتی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رولز میں نرمی ہو بھی تو شفافیت لازمی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکوڈک سے نکالی گئی معدنیات میں پاکستان کا حصہ 50 فیصد ہوگا۔جسٹس جمال مندوخیل نے بتایا کہ حصہ جتنا بھی ہے لیکن قانون پر عمل کرنا لازمی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا جا رہا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ ریکوڈک معاہدہ ماضی کے عدالتی فیصلے کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے، ماہرین کے مطابق ریکوڈک پر موجودہ حالات میں اس سے اچھا معاہدہ ممکن نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان کو 9 ارب ڈالر سے زائد ادا کرنا ہوں گے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس میں عدالت کا دائرہ اختیار کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات تک محدود ہوتا ہے۔