اٹھارویں ترمیم کی حفاظت کیلئے بلاول بھٹو زرداری کی لانگ مارچ کی دھمکی

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 1973 کے آئین اور اٹھارویں ترمیم کی حفاظت کیلئے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے کی دھمکی دے دی۔پارلیمنٹ نے کیسے برداشت کرلیا کہ کوئی دوسرا ادارہ ٹیکس لگائے، پارلیمنٹ کو اپنا کھویا ہوا اختیار واپس لینا ہوگا، باقی ادارے خود کو طاقتور بناسکتے ہیں تو پارلیمنٹ کیوں نہیں،کراچی پریس کلب میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم پر حملے کیے جاتے ہیں، تاہم پیپلز پارٹی ہمیشہ ان مذموم حملوں کی مخالفت کی ہے۔چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی پوری جدوجہد 1973 کے آئین کی بحالی کے لیے تھی، جبکہ 18ویں آئینی ترمیم پورے ملک کے لیے تاریخی موقع تھا جس کی شکل میں 1973 کے آئین کو بحال کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ میں پورے ملک میں لوگوں کے پاس جاوں گا اور انہیں یہ بتاوں گا 1973 کا آئین انہیں کیا کیا حقوق دیتا ہے، تاہم اگر ان کی ان کوششوں کو کمزور کرنے کی سازشیں کی گئیں تو وہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ بھی کر سکتے ہیں۔
چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ ہم نے ساری جماعتوں کے ساتھ ملکر اٹھارویں ترمیم کو منظور کیا تھا، پیپلزپارٹی اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی باالکل برداشت نہیں کرسکتی، ہم ہر سطح پر اپنا احتجاج کرنے کو تیار ہیں، اس قانون کی افادیت کا پیغام عوام تک پہنچانا ضروری ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ آخر اٹھارویں ترمیم پر یہ جھگڑا کیوں ہے سلیکٹڈ حکومت کے سلیکٹڈ وزیر بھی اس پر بات کرتے ہیں، قانون کے معاملات میں متضاد باتیں کیوں سامنے آرہی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمیں غیر جمہوری قوتوں کے خلاف جدوجہد کرنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پریس کلب کو ادارہ سمجھ کر مضبوط بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں مل کر ملک کے اداروں اور جمہوری قوتوں کو مضبوط کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے بچپن میں یہاں آیا کرتا تھا، میں ملک بھر کے پریس کلبز کو اپنی سیاست کا مرکز بنائوں گا۔چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اور بلاول بھٹو صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم نے ملکر جمہوریت کو مضبوط بنانا ہے۔صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف آپ نے تنقید بھی کی ہے، یہ اچھی بات ہے، آپ کی تنقید سے ہم طاقت لینا چاہتے ہیں۔
بلاول نے کہا کہ ان کی والدہ شہید بے نظیر بھٹو نے بھی اخباروں کی تنقید کو برداشت کیا، صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے قومی سطح پر قانون بنائیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں پارلیمان نے اپنی جگہ بالکل پیچھے چھوڑ دی ہے، پارلیمان نے کسی اور کی مداخلت کو کیسے برداشت کرلیا اس پر بھی اسمبلی میں بحث کی ضرورت ہے، جب باقی ادارے اپنے آپکو طاقت ور بنا سکتے ہیں تو پارلیمان کیوں نہیں انہوں نے کہا کہ اس ملک کے فیصلے صرف منتخب نمائندے لیں گے اور کوئی نہیں تاہم اس بات کو سمجھنا سلیکٹد وزیر اعظم کے لیے مشکل ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کیا بزدلی اور بچکانہ حرکت ہے کے آپ منی بجٹ پیش کرتے ہو،اس کے بعد سیشن سے بھاگ جاتے ہویہ ملک کی معیشت کوئی مذاق کا معاملہ نہیں۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ عوام مہنگائی کے سونامی میں واقعی ڈوب رہی ہے، سیاسی جماعت نے وعدہ کیا کہ ہمارے پاس پلان ہے اور 200ماہرین کی ٹیم ہے، مگر پھر اس کے بعد یوٹرن کیوں لیتے ہو حکومت نے پہلا بجٹ پیش کیا تو فیصلے کیوں نہیں کیے ان کا کوئی معاشی پلان موجود ہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی نیا پاکستان کی مہم سمجھ سے باہر ہے، منی بجٹ امیروں کا بجٹ ہے، حج پر سبسڈی ختم کرنا، غریبوں کی سبسڈی ختم کرنا، کسان ، مزدور اور نوجوانوں کے لیے کہاں ریلیف ہے؟ اس ملک کی معیشت کا حل سب سے غریب طبقے پر سرمایہ کاری ہے۔انہوں نے کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے ہمیں آئیں دیا، محترمہ کی کی سیاست آئین پاکستان کو بحال کرنے کی تھی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پچھلے ایک سال میں پارلیمنٹ نے اپنا اختیار بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے، حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ کا کھویا ہوا اختیار واپس لینا ہے، چیرمین پی پی پی نے کہا کہ اگر حکومت پارلیمنٹ کو سنجیدہ لے اور عوام کے مسائل حل کرے تو کامیاب بھی ہوسکتی ہے، ایک بنیادی فلسفہ ہونا چاہیے کہ پہلے انسان بنو پھر سیاست دان، حکمران یا جج بنو، انسداد تجاوزات کے خلاف عدالتوں اور حکومت کے فیصلے انسانی بنیادوں پر نہیں ہیں، میئر کراچی کو غریب لوگوں کی دکانیں اور گھر گراتے دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہوں
، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کراچی پریس کلب کا دورہ کیا جہاں انہوں نے نئی گورننگ باڈی اور سینئر صحافیوں سے ملاقات کی، اس موقع پر بلاول بھٹو کو پریس کلب کی اعزازی رکنیت بھی دی گئی۔