بھٹو ریفرنس کیس میں جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے سپریم کورٹ کی معاونت سے معذرت کرلی ۔

بھٹو ریفرنس کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی بینچ نے کی ۔سماعت کے آغاز پر جسٹس ریٹائرڈ طارق محمودنےعدالتی معاون بننےسےمعذرت کر لی۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ احمد رضا قصوری سمیت بعض افراد نے ان پر اعترض کیا ہے کہ پیپلزپارٹی سے تعلق کی بنیاد پران کی رائے تعصب پر مبنی ہوگی اور وہ عدالت کو شفاف رائے نہیں دے سکیں گے۔ جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ ججز پر بھی روز تنقید ہوتی ہے لیکن وہ کام نہیں چھوڑ سکتے۔ کمرہ عدالت میں فیصلے آئین اور قانون کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں ذاتی پسند نہ پسند ججز بھی اپنے چیمبر میں چھوڑ کرآتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی معاون ریفرنس میں مدد کےلیے مقرر کیے گئے تھے قطع نظر اس کے کہ ان کا تعلق کس پارٹی سے ہے۔اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ احمد رضا قصوری نے ان پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا ہےتاہم وہ عدالت کی معاونت جاری رکھیں گے۔ بابر اعوان نے دلائل دیئے کہ بھٹو کیس میں ججز نے ناکافی شواہد کی بناء پر فیصلہ دے کر تعصب کا مظاہرہ کیا ،ججز کو معلوم تھا کہ مقدمہ کس طرف لے کر چلناہے۔ تعصب کا مظاہرہ کرنے والے جج خود پارٹی بن جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر کا مطالبہ بھٹو ریفرنس میں عدالتی غلطیوں کی درستگی ہے۔ چیف جسٹس نے بابر اعوان سے استفسارکیا کہ کیا سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس کی بنیاد پر ایسے کیس دوبارہ سن سکتی ہے جس کے تمام قانونی مراحل مکمل ہوچکے ہوں۔ اس پر بابراعوان نے بھارتی ہائیکورٹ کے بعض کیسز کا حوالہ دیا جس میںسپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلوں میں قانونی غلطیاں درست کی تھیں۔ جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ تمام سول مقدمات ہیں ان کا صدارتی ریفرنس سے کوئی تعلق نہیں ۔ جسٹس ریٹائرڈ انوارالحق کے بیٹے عزیزاللہ نے مقدمے کا حصہ بننے کے لیےسپریم کورٹ کو خط لکھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے انہیں بھی سناجائے۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت کل تک ملتوی کردی ہے۔