ہمیں بلدیاتی الیکن نہیں چاہیئے،عام انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمان
امیر جمعیت علماء اسلام (ف)مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے ہمیں بلدیاتی الیکن نہیں چاہیئے بلکہ عام انتخابات کا اعلان کیا جائے، یہ جعلی اسمبلیاں ہیں ، جب تک یہ جعلی اسمبلیاں موجود ہیں اس وقت ملک میں لوگوں کو بلدیاتی الیکشن کی طرف متوجہ کرنا ان کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ووٹ کے حق سے ان کو دستبردار کرنے والی بات ہے۔جنوبی پنجاب کے لئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی پولیس کی تقرری آدھا تیتر، آدھا بٹیر والی بات ہے ، ایک تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے ہم نے جنوبی پنجاب کو بڑی اہمیت دی ہے ، میں نہیں سمجھتا کہ جو اس علاقہ کے لوگوں کا مطالبہ ہے یہ اقدام اس کو پورا کرتا ہے یا اس سے لوگ مطمئن ہو سکتے ہیں۔ ہم چوروں کی تلاش میں ہیں اور چور مل نہیں رہے تاہم ا ب تو چور مل گئے ہیں اور چور تمھاری کابینہ میں بیٹھے ہیں تو جلدی سے ان کو پکڑ لو اگر واقعی تم چوروں کو پکڑنے کے لئے آئے ہو تو، ورنہ کہہ دو ہم ڈرامہ ہیں اور صرف ایک لفظ سے قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اس طرح قوم مطمئن نہیں ہو سکتی۔حکومت کو سپورٹ کرنے والے بھی ڈاواں ڈول ہیں اور حکومت کی مخالفت کرنے والے بھی ڈاواں ڈول نظر آرہے ہیں،میرے خیال میں اس وقت درمیانی راستہ اختیار کرنے کی کوئی جگہ نہیں رہی ہے، گنجائش ہی نہیں ہے، واضح طور پر یا حکمرانوںکے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا یا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا اس کے بیچ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اپوزیشن یا میں تو کہہ سکتا ہوں لیکن اگر حکمران یہ کہے کہ ہمارے پاس پانچ یا چھ مہینے ہیں تو یہ ان کی ذہنی شکست خوردگی کی علامت ہے۔ ا ن خیالات کااظہار مولانا فضل الرحمان نے ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) کا کہنا تھا کہ نئے سال کے محصولات کا ہدف گزشتہ سال سے زیادہ ہوا کرتا ہے یہ پہلی مرتبہ ہے کہ نئے سال کے لئے محصولات کا ہدف گزشتہ سال سے کم رکھا گیا ہے ۔ 50سال میں پہلی مرتبہ ٹیکس گروتھ ریٹ منفی میں گئی ہے، براہ راست بیرونی سرمایاکاری میں پہلی مرتبہ 50فیصد کمی آئی ہے، نہ ملک کے اندر کے عوام کا ان پر اعتماد ہے اور نہ سمندر پارپاکستانیوں کا ان پر اعتماد ہے، ان کو ٹیکس ادا کرنا اپنے پیسے اور مال کا ضیاع سمجھتے ہیں اور وہ اپنے پیسے کو محفوظ تصور نہیں کرتے۔ ہمارا جو مئوقف ہمیشہ رہا ہے ہم تو سمجھتے ہیں کہ جو الیکشن ہوا وہ بھی ڈھونگ ، جو حکومت بنی وہ بھی ڈھونگ اور جو بجٹ بنا وہ بھی ڈھونگ ، اب اس ملک کو کہاں تک پہنچانا ہے ، کس طرح پاکستان کو ان لوگوں کے رحم وکرم پر چھوڑنا ہے اس اعتبار سے ہمارا مئوقف روز بروز قوم کے سامنے ، ایک ، ایک بچے کے سامنے آرہا ہے کہ ہم نے جو پہلے دن مئوقف اختیار کیا تھا وہ صیح تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے بڑے لوگ جو ان حکمرانوں کی پروجیکشن کا حصہ تھے ، صرف ووٹ نہیں دیا بلکہ ان کی پروجیکشن میں انہوں نے کئی سال لگائے آج وہ معترف ہیں کہ ان کو ووٹ دینا اور ان کی حمایت کرنا یہ ہماری جہالت تھی، بڑے، بڑے دانشور اپنے اوپر لعنت بھیجتے ہیں کہ ہم نے ان کو ووٹ دیا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوتا ، کامیابیاں ، ناکامیاں آتی رہتی ہیں لیکن ملک کو اس مقام پر پہنچانااگر محصولات کے ہدف کو ایک حکومت 1900ارب روپے سے3600ارب پر لے جاتی ہے اورع دوگنا کر دیتی ہے تو آج اس کے ساتھ کیا موازنہ کیا جاسکتا ہے ، یہ کیا موازنہ ہے جو آج دنیا میں ہم کررہے ہیں اور پھر بھی کہتے ہیں کہ احتساب ہو گا ، کس چیز کا احتساب، ایسے احتساب پر تو حکمرانوں کو شرم آنی چاہیے تھی، صوبہ خیبر پختونخوا میں خود ہی انہوں نے ایک احتساب کمیشن بنایا اور جب دیکھا کہ احتساب کے شکنجے میں خو د ان کے اپنے وزیر آرہے ہیں اور حکومت آرہی تو اس کے اختیارات ختم کر دیئے اور اگلی حکومت آئی تو احتساب کمیشن ہی ختم کر دیا۔ فارن فنڈنگ کیس ہو، بی آر ٹی پشاور کا مسئلہ ہو ، بلین ٹریز کا مسئلہ ہو ، کیوں قدم قدم پر عدالتوں سے اسٹے لے رہے ہیں، درخواست کرتے ہیں کہ ہمارا احتساب نہ کیا جائے۔یہ احتساب اپنا اعتماد کھو بیٹھا ہے، ہم تو پہلے ہی اس کے قائل نہیں تھے لیکن ہماری بڑی جماعتیں اس قانون کو برقراررکھنا چاہتی تھیں آج وہ بھی پشیمان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں ایک قومی یکجہتی کی ضرورت ہے، ہم نے کوروناکی عالمی وباء کی وجہ سے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا اور ہم نے انتظامیہ کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھایااور حکمران بھی کہتے تھے کہ یہ یکجہتی کا وقت ہے ہم نے مل کر لڑنا ہے، لیکن ان حالات کے اندر غیر متنازعہ ایشوز اور غیر متنازعہ معاملات کو دوبارہ متنازعہ بنانا جسے 18ویں ترمیم کا مسئلہ لے آئے ، این ایف سی ایوارڈ کا مسئلہ لے آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ18ویں ترمیم ان ترامیم میں سے ایک آدھ ترمیم ہے جو بالکل ایوان کی متفقہ ہے ، آج اس کو متنازعہ بنایاجارہا ہے، پھر صوبوں کے اندر ایک ارتعاش آئے گا، پھر وہاں پر محرومی کے احساسات اٹھیں گے جبکہ آئین کہتا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے حصوں کو کم نہیں کیا جاسکے گا، ا ئین صوبوں کے حصہ میں کسی بھی قسم کی کمی کو تسلیم نہیں کرتا، یہاں دبائو ڈالا جارہا ہے کہ صوبے اپنا حصہ کم کر دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے عوام کو دربدر کر دیا گیا ہے وہاں پر کوئی انتظام نہیں ہے، کوئی پولیس اور کوئی انتظامیہ نہیں ہے۔