سپریم کورٹ نے الیکشن اصلاحات ایکٹ دوہزار سترہ کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
سپریم کورٹ کا الیکشن اصلاحات ایکٹ دوہزار سترہ کا اکیاون صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری، فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا، عدالت نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ایسی کوئی شق نہیں تھی کہ نااہلی کے بعد کوئی پارٹی صدر رہ سکے، ایسے قانون کی غیرموجودگی میں نوازشریف پارٹی صدر بننے کے مجاز نہیں تھے۔ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، اکثریت کی بنیاد پر حکومت قائم کی اور نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر تھے۔ 3 اپریل 2016 کو آئی سی آئی جے کی طرف سے پاناما کیس سامنے آیا اور اس سے متعلق دنیا بھر کے اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں، آف شور کمپنیوں کے حوالے سے اس وقت کے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے بچوں کے نام بھی سامنے آئے۔ پاناما لیکس کی وجہ سے کئی عالمی رہنماؤں نے استعفے دیئے، نواز شریف نے قوم سے خطاب اور پارلیمنٹ کے اندر مختلف وضاحتیں پیش کیں، متضاد بیانات کی وجہ سے نواز شریف لوگوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔عدالتی فیصلے کے مطابق کچھ لوگ پٹیشن لے کر سپریم کورٹ میں آئے، اس پر 5 رکنی لارجر بینچ نے 20اپریل 2017 کو ایک فیصلہ دیا، جس میں دو ججز جسٹس، آصف کھوسہ اور جسٹس گلزار نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا، 20 اپریل کے فیصلے میں 3ججز نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا جس نے 60 دنوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کی اور رپورٹ کی بنیاد پر نواز شریف کو 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا گیا۔ اس عرصے کے دوران نواز شریف (ن) لیگ کے پارٹی صدر رہے لیکن نااہلی کے بعد نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نہیں رہ سکتے تھے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے نیب کو شریف خاندان کیخلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا، تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ 2017میں ایسی کوئی شق نہیں تھی کہ نااہلی کےبعد کوئی پارٹی صدررہ سکے، ایک شخص کے لیے کی گئی قانون سازی عدالت کوآنکھیں دکھانے کے مترادف ہے، اس سےمقننہ کوایسے لوگ کنٹرول کرینگےجو آئین کےتحت پارلیمنٹ کاحصہ نہیں بن سکتے،ایکٹ کی شق 232،203کوآئین سےہٹ کر پڑھاجائےتوسیاسی جماعتوں کوریموٹ سےچلانےکے دروازے کھلیں گے، لوگوں کو دیدہ دانستہ فائدہ پہنچانے کے لیے آئینی شقوں سے انحراف نہیں کیا جاسکتا، ماتحت قانون کے ذریعے آئین کو بائی پاس نہیں کیا جاسکتا۔