خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے

زلزلہ پیما مرکز کا کہنا ہے کہ زلزلے کا مرکز افغانستان کے شہر اسمار سے 29 کلو میٹر دور تھا۔ اس زلزلے کی گہرائی 94 کلومیٹر ریکارڈ کی گئی ہے۔ زلزلے کی وجوہات: زلزلہ قشر الارض سے توانائی کے اچانک اخراج کى وجہ سے رونما ہوتے ہيں۔ جس کى وجہ سے زلزلياتى لہريں پيدا ہوتى ہيں۔ يہ توانائى اکثر آتشفشانى لاوے کى شکل ميں سطح زمين پرنمودار ہوتى ہےاس توانائى (آتشفشانى لاوے) کے قوت اخراج سے قشر الارض کى ساختمانى تختيوں ميں حرکت پذيرى پيدا ہوتى ہے۔ لہذا اپنے دوران حرکت يہ تختياں آپس ميں ٹکراتى ہيں جسکى وجہ سے سطح زمين کے اوپر جھٹکے (tremours) پيدا ہوتے ہيں۔ اور زلزلے رونما ہوتے ہيں۔ زلزلوں کي پیمائش ايک پيمانے پرکي جاتي ہے جسے ريکٹراسکيل کہا جاتا ہے- 1280 ميں، "زلزلوں” کو امريکہ ميں "ايورتھکوئيکينج” کہا جاتا تھا۔ زلزلے دو قسم کے ہوتے ہيں، قدرتی وجوہات کی وجہ سے آنے والے زلزلوں کو ٹيکٹونک Tectonic زلزلے کہا جاتا ہے جبکہ انسانی سرگرميوں کی وجہ سے آنے والے زلزلے نان ٹيکٹونک Non Tectonic کہلاتے ہيں۔ ٹيکٹونک زلزلے انتہائی شدت کے بھی ہوسکتے ہيں۔ جبکہ نان ٹيکٹونک عام طور پر معمولی شدت کے ہی ہوتی ہيں۔ ايک ہی زلزلے کا مختلف علاقوں پر اثر مختلف ہو سکتا ہے چنانچہ کسی خطے ميں تو بہت زيادہ تباہی ہوجاتی ہے ليکن دوسرے علاقے محفوظ رہتے ہيں۔ زلزلے کی لہريں 25 ہزار کلوميٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھيلتی ہيں۔ نرم مٹی اور ريت کے علاقے ميں يہ نہايت تباہ کن ثابت ہوتی ہيں۔ ان کی شدّت کا اندازہ ريکٹر اسکيل پر زلزلہ پيما کے ريکارڈ سے لگايا جاتا ہے۔ جبکہ ظاہر ہونے والی تباہی کی شدّت مرکلی اسکيل Mercally Intensity Scale سے ناپی جاتی ہے- دنيا ميں 50 فيصد زلزلے کوہِ ہماليہ، روکيز ماؤنٹين اور کوہِ اينڈيز ميں پيدا ہوتے ہيں اور يہ تينوں پہاڑی سلسلے اوپر بيان کردہ پٹيوں ہی ميں واقع ہيں۔ تقريباً 40 فيصد زلزلے، براعظموں کے ساحلی علاقوں اور ان کے قرُب و جوار ميں پيدا ہوتے ہيں جبکہ بقيہ 10 فيصد زلزلے دنيا کے ايسے علاقوں ميں جو نہ تو پہاڑی ہيں اور نہ ساحلی ہيں، رونما ہوتے ہيں۔ جب زمين کی پليٹ جو تہ در تہ مٹی، پتھر اور چٹانوں پر مشتمل ہوتی ہے، کسی ارضياتی دباؤ کا شکار ہوکر ٹوٹتی يا اپنی جگہ چھوڑتی ہے تو سطح زمين پر زلزلے کی لہريں پيدا ہوتی ہيں۔ يہ لہريں دائروں کی صورت ميں ہر سمت پھيل جاتی ہيں۔ جہاں پليٹ ميں حرکت کا مرکز واقع ہوتا ہے وہ Hypo Centre کہلاتا ہے۔ اس کے عين اوپر سطحِ زمين پر زلزلے کا مرکز Epicentre کہلاتا ہے۔ يہ لہريں نظر تو نہيں آتيں ليکن ان کی وجہ سے سطح زمين پر موجود ہر شے ڈولنے لگتی ہے۔ صديوں پہلے لوگ زلزلے کے بارے ميں عجيب وغريب رائے رکھتے تھے، مثلاً عيسائی پادريوں کا خيال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہگار انسانوں کے لیے اجتماعی سزا اور تنبيہ ہوتے ہيں بعض قديم اقوام سمجھتی تھيں مافوق الفطرت قوتوں کے مالک ديوہيکل درندے جو زمين کے اندر رہتے ہيں، زلزلے پيدا کرتے ہيں قديم جاپانيوں کا عقيدہ تھا کہ ايک طويلِالقامت چھپکلی زمين کو اپنی پشت پر اُٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہيں کچھ ايسا ہی عقيدہ امريکی ريڈ انڈينز کا بھی تھا کہ زمين ايک بہت بڑے کچھوے کی پيٹھ پر دھری ہے اور کچھوے کے حرکت کرنے سے زلزلے آتے ہيں سائیبيريا کے قديم باشندے زلزلے کی ذمّہ داری ايک قوی البحثّہ برفانی کتے کے سر تھوپتے ہيں، جو ان کے بقول جب اپنے بالوں سے برف جھاڑنے کے لیے جسم کو جھٹکے ديتا ہے تو زمين لرزنے لگتی ہے – ہندوؤں کا عقيدہ ہے کہ زمين ايک گائے کے سينگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سينگ تبديل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہيں۔ قديم يونانی فلسفی اور رياضی داں فيثا غورث کا خيال تھا کہ جب زمين کے اندر مُردے آپس ميں لڑتے ہيں تو زلزلے آتے ہيں۔ اس کے برعکس ارسطو کی توجيہہ کسی حد تک سائنسی معلوم ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ جب زمين کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پيدا ہوتے ہيں۔ افلاطون کا نظريہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا کہ زيرِ زمين تيز و تند ہوائيں زلزلوں کو جنم ديتی ہيں تقريباً 70 سال پہلے سائنسدانوں کا خيال تھا کہ زمين ٹھنڈی ہو رہی ہے اور اس عمل کے نتيجے ميں اس کا غلاف کہيں کہيں چٹخ جاتا ہے، جس سے زلزلے آتے ہيں۔ کچھ دوسرے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ زمين کے اندرونی حصّے ميں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمين غبارے کی طرح پھيلتی ہے۔ ليکن آج کا سب سے مقبول نظريہ ”پليٹ ٹيکٹونکس“ کا ہے جس کی معقوليت کو دنيا بھر کے جيولوجی اور سيسمولوجی کے ماہرين نے تسليم کرليا ہے