شرجیل انعام میمن کی ضمانت میں ایک ہفتے کی توسیع کر دی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیپلز پارٹی رہنما اور سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کی ضمانت میں ایک ہفتے کی توسیع کر دی ۔ منگل کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پیپلز پارٹی رہنما شرجیل انعام میمن کی ضمانت قبل از گرفتاری درخواست کی سماعت کی۔پراسیکیوٹر نیب نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا جہاں اختیارات کا غلط استعمال ہو گا تو عدالتی نظر ثانی ہو گی۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ عدالت کے سامنے رکھنے کا کہا تاہم چیف جسٹس نے انہیں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اسفندیار ولی کیس نیب آرڈیننس سے متعلق بنیادی فیصلہ ہے۔نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ اگر نیب کے پاس متضاد مواد موجود ہو تو گرفتار کیا جا سکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پھر اسفندیار ولی کیس پڑھا نہیں کیونکہ اسفندیار ولی کیس میں سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ نیب تفتیشی ایجنسی ہے جج نہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کو وقت چاہئے تو لے لیں لیکن اس کے بعد عدالت کی معاونت کریں، نیب کا صرف کہہ دینا کافی نہیں کہ متضاد مواد موجود ہے کیونکہ نیب تو تفتیش کے دوران ملزم کو جج کر رہا ہوتا ہے۔نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کرنے کی درخواست کی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو اتنی جلدی کیوں ہے ؟ تحقیقات کا آغاز کب ہوا ؟۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ فروری 2019 میں تحقیقات کے احکامات جاری کیے گئے تھے تاہم جب جرم ہوا تب سے ہی کچھ ریکارڈ غائب ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تفتیشی افسر کو سب سے پہلے ریکارڈ اپنے قبضے میں لینا چاہیے تھا۔ تحقیقات میں تفتیشی افسر کو سب سے پہلے کیا کرنا چاہئے ؟ نیب کے رویے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ نیب صرف گرفتار کرنے کا شائق ہے نہ کہ تفتیش کرنے کا۔ اس عدالت میں ایسا بیان نہ دیں جو بعد میں ثابت نہ کر سکیں۔عدالت نے کہا کہ کون جرات کر سکتا ہے کہ نیب مانگے اور وہ ریکارڈ نہ دے جبکہ نیب کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عدالت کو مطمئن کرے۔ جب ملزم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل)میں ہے اور تفتیش میں تعاون کر رہا ہے تو گرفتار کیوں کرنا چاہتے ہیں ؟۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر اسفندیار ولی کیس کا فیصلہ پڑھ کر آئیں۔ کیا آپ نے ریفرنس دائر کر دیا ہے ؟۔شرجیل میمن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں چوتھی بار نیب میں طلب کیا گیا تھا اور ہم سے 15 سال کے بلز مانگے جا رہے ہیں۔پراسیکیوٹر نیب نے موقف اختیار کیا کہ اس کیس میں 9 کروڑ روپے کی رشوت لی گئی اور 7 کروڑ روپے شرجیل میمن کو چیک کے ذریعے دیئے گئے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ پھر تو نیب کی تفتیش مکمل ہو چکی ہے، پھر گرفتار کیوں کرنا چاہتے ہیں ؟ نیب نے شرجیل میمن کو 2 سال کے لیے حراست میں رکھا اور تفتیش مکمل کر کے ریفرنس دائر کر دیا جانا چاہئے تھا، اگر نیب کے پاس کوئی متضاد مواد موجود ہے تو وہ عدالت کے سامنے رکھے۔عدالت نے شرجیل انعام میمن کی ضمانت میں ایک ہفتے کی توسیع کرتے ہوئے سماعت 11 مارچ تک ملتوی کر دی۔