پیٹرول پر36 ،ڈیزل پر 47 ،مٹی کے تیل پر19 روپے فی لیٹر ٹیکس وچارجز وصول کئے جارہے ہیں۔حکومت
سینیٹ میں حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ پیٹرول پر36.34،ڈیزل پر 47.17،مٹی کے تیل پر19.66،لائٹ ڈیزل پر 14.12روپے فی لیٹر ٹیکس اور چارجز وصول کئے جارہے ہیں،دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیرکیلئے گزشتہ حکومت نے رواں مالی سالکیلئے بجٹ میں 23ارب 68کروڑ روپے مختص کئے تھے،نیلم جہلم سرچارج 30 جون کے بعد ختم کر دیا جائے گااور اسکے بعدبجلی کے بلوں کے ذریعے نیلم جہلم سرچارج وصول نہیں کیا جائے گا، رواں سال بجلی چوری سے 30کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا،بجلی چوری میں 291ملازمین ملوث پائے گئے جن کیخلاف کارروائی کی گئی،پاکستان سٹیزن پورٹل میں 13اپریل 2019تک 6لاکھ20ہزار588شکایات موصول ہوئیں ،جن میں سے4لاکھ64ہزار562شکایات حل ہوئیں ،سمندرمیں آف شور ڈرلنگ جاری ہے،4800میٹرڈرلنگ ہوچکی جبکہ 5ہزار ہوناباقی ہے، آئندہ 3سے4ہفتوں میں پتہ چل جائےگاکہ تیل ہے یا گیس،صوبہ سندھ میں کل 17 تیل اور گیس کی تلاش اور پیداوار کی کمپنیاں کام کر رہی ہیں،گزشتہ 10سالوں کے دوران تیل اور گیس کے دریافت ہونے والے ذخائر کی کل تعداد 160 ہے۔ان خیالات کا اظہار جمعہ کو سینیٹ میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر پارلیمانی امور اعظم خان سواتی اور وزیر توانائی عمر ایوب خان نے ارکان کے سوالوں کے جواب میں کیا۔سینیٹر مشتاق احمد کے سوال کے جواب میں وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم خان سواتی نے ایوان کو بتایا کہ 1951 میں پاکستان میں سالانہ فی کس پانی کی دستیابی 5260 کیوبک میٹر تھی جو کہ اب کم ہو کر سالانہ 908 کیوبک میٹر رہ گئی ہے اس کی وجہ آبادی کا بڑھتا جانا ہے ،اگر یہ ایسے ہی رہا تو پانی کے تخمینے میں بتایا گیا ہے کہ 2025 میں پانی کی دستیابی مزید کم ہو کر سالانہ 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا،سینیٹر طلحہ محمود کے سوال کے جواب میں اعظم خان سواتی نے ایوان کو بتایا کہ گزشتہ دس سالوں کے دوران چار درمیانے اور بڑے ڈیموں کی تکمیل کے ذریعے نظام میں 4.5 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش پیدا کی گئی ،حکومت دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیئے زمین حاصل کر رہی ہے اس ڈیم کی قابل استعمال سٹوریج کیسپیٹی 6.4 ملین ایکڑ فٹ فٹ ہو گی ،اب تک 85 فیصد زمین حاصل کی گئی ہے ،تعمیری کام کے آغاز کے لیئے 23680 ملین روپے پی ایس ڈی پی 2018-19 میں مختص کیئے گئے ہیں ،سینیٹر مشتاق احمد کے سوال کے جواب میں وزیر پارلیمانی امور اعظم خان سواتی نے ایوان کو بتایا کہ نیلم جہلم پراجیکٹ مکمل کر لیا ہے اور اس کے چاروں یونٹس کمرشل آپریشن میں ہیں ،نیلم جہلم سرچارج کی مد میں 64.8ارب روپے جمع ہوئے،نیلم جہلم سرچارج 30 جون کے بعد ختم کر دیا جائے گااور اسکے بعدبجلی کے بلوں کے ذریعے نیلم جہلم سرچارج وصول نہیں کیا جائے گا۔سینیٹر سسی پلیجو کے سوال کے جواب میں وزیر توانائی عمر ایوب خان نے ایوان کو بتایا کہ سمندرمیں آف شور ڈرلنگ جاری ہے۔ 4800میٹرڈرلنگ ہوچکی جبکہ 5ہزار ہوناباقی ہے۔ آئندہ 3سے4ہفتوں میں پتہ چل جائےگاکہ تیل ہے یا گیس، سندھ میں کل 17تیل اور گیس کی تلاش اور پیداوار کی کمپنیاں کام کر رہی ہیں،سینیٹر چوہدری تنویر کے سوال کے جواب وزیر توانائی عمر ایوب خان نے ایوان کو بتایا کہ گزشتہ 10 سالوں کے دوران تیل اور گیس کے دریافت ہونے والے ذخائر کی کل تعداد 160 ہے،سینیٹر سید محمد علی شاہ جاموٹ کے سوال کے تحریری جواب میں وزیر انچارج برائے وزیراعظم آفس نے ایوان کو بتایا کہ پاکستان سٹیزن پورٹل میں 13اپریل 2019تک 620588شکایات موصول ہوئیں ،جن میں سے 464562شکایات حل ہوئیں ۔سینیٹر راحیلہ مگسی کے سوال کے جواب مین وزارت پیٹرولیم نے اپنے تحریری جواب میں ایوان کو آگاہ کیا کہ پٹرول کی قیمت خرید 62روپے 55پیسے اور قیمت فروخت 98روپے 89پیسے فی لٹر ہے۔ ڈیزل کی قیمت خرید 70روپے 26پیسے اور قیمت فروخت 117روپے 43پیسے فی لٹر۔اسی طرح مٹی کے تیل کی قیمت خرید 69روپے 65پیسے اور قیمت فروخت 89روپے 31پیسے فی لٹر ہے۔ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت خرید 66روپے 44پیسے اور قیمت فروخت 80روپے 54پیسے فی لیٹرہے۔ پٹرول پر فی لیٹر ٹیکسز کی مد میں 26روپے 50پیسے اور ڈسٹری بیوشن اینڈ ٹرانسپورٹیشن کاسٹ کی مد میں 9روپے 84پیسے فی لٹر وصول کئے جارہے ہیں۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل پر فی لٹر 39روپے 96پیسے فی لٹر ٹیکسز اور ڈسٹری بیوشن اینڈ ٹرانسپورٹیشن کاسٹ کی مد میں 7روپے 21پیسے فی لٹر وصولی کی جارہی ہے، مٹی کے تیل پر 15روپے 86پیسے فی لٹر ٹیکس اور 15روپے 86پیسے ڈسٹری بیوشن اینڈ ٹرانسپورٹیشن کاسٹ کی مد میں وصول کیے جارہے ہیں۔اسی طرح لائٹ ڈیزل آئل پر 11روپے 72 پیسے فی لٹر ٹیکسز وصول کئے جارہے ہیں جبکہ لائٹ ڈیزل آئل پر 2روپے 38 پیسے فی لٹر ڈسٹری بیوشن اینڈ ٹرانسپورٹیشن کاسٹ بھی لی جارہی ہے۔ سینیٹ کو بتایا گیا کہ رواں سال ملک بھر میں بجلی چوری سے قومی خزانے کو 30کروڑ 27لاکھ روپے کا نقصان ہوا ،بجلی چوری میں ملوث 219ملازمین کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ پیسکو کے 72ملازمین بجلی چوری میں ملوث ہیں۔میپکو کے 40، فیسکو کے 32،کیسکو کے 23اور ٹیسکو کے 11،گیپکو کے 18اور لیسکو کے 27ملازمین بجلی چوری میں ملوث ہیں۔ حیسکو کے 16اور سیپکو کے 24ملازمین بجلی چوری میں ملوث نکلے ہیں۔آئیسکو نے بجلی چوری کے باعث نقصانات پر قابو پانے کا دعوی کیاہے ۔ آئیسکو کے 28 ملازمین بجلی چوری میں ملوث پائے گئے ہیں۔