نیب کا حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ ہےتو یہ 100فیصد غلط خیال ہے:چیئرمین نیب

چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال نے کہا ہے کہ اگر کسی کا خیال ہے کہ نیب کا حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے تو یہ 100فیصد غلط خیال ہے۔ میں یقین دلا کے جارہا ہوں کہ نیب کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھائے گا جس کے ہماری کاروباری کمیونٹی اور معیشت پریا ملک کے اقتصادی حالات پر کسی قسم کے مضر اثرات ہوں۔ نیب کاروباری طبقہ کے مفادات پر کسی طرح سے اثر انداز نہیں ہو گا۔ باہر سے سرمایاکاری آئے یا ملک سے سرمایاکاری آئے کاروباری طبقہ اطمینان سے اپنا کاروبار کرے، کبھی نیب آپ سے نہیں پوچھے گا کہ یہ سرمایاکاری کہاں سے آئی، یہ کیسے ہوئی، کیا ہوا، یہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان جانے ، ایف بی آر جانے اور دوسرے ادارے جانیں۔ احتساب بلا امتیاز ہے اور یہ احتساب ہوتا رہے گا، کوئی خوف اور ڈر اس میں شامل نہیں ہو گا، قانون میں بہتری کے لئے ترامیم ہو سکتی ہیں وہ پارلیمنٹ کا کام ہے جو بھی قانون ہو گا نیب اس کے مطابق اپنے فرائض انجام دے گا اور نیب اب بھی آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض کی بجاآوری کے لئے کوشش کر رہا ہے ۔ایک بہت بڑا شخص جس کا لاہور سے تعلق ہے میں ان کا نام نہیں لے رہا 80اور90کے اوائل میں لوگوں نے انہیں ہنڈا70پر دیکھا اور آج ان کے دبئی میں پلازے اور ٹاورز ہیں یہ کہاں سے آئے اور ان کو جب واپس لانے کی کوشش کی تو جس ملک میں تھے وہاں کی ایک چھوٹی سی عدالت نے حکم امتناع جاری کر دیا اور ہم ان کو واپس نہیں لاسکے۔ ہم نے ایک منزل کا تعین کر لیا ہے اور یہ ہے کہ پاکستان کو کرپشن فری بنانا ہے۔ وہ لوگ بھاشن دے رہے ہیں اور تقریریں کر رہے ہیں جنہوں نے کبھی نیب کا قانون اٹھا کر پڑھا نہیں ہے۔ ان خیالات کا ظہار چیئرمین نیب نے لاہور میں تاجروں اور صنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہان تھا کہ منی لانڈرنگ اور بزنس میںبہت فرق ہے یہ ایک چیز نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے منی لانڈر نگ کے کئی کیس ہمارے حوالہ کیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب کو کبھی اس بات کا شوق نہیں رہا کہ غیر ضروری طور پر اپنی حد سے تجاوز کرے۔ ٹیکس نہ دینے کے حوالہ سے ہم نے کوئی کیس نہیں لیا۔میں تاجروں اور صنعتکاروں کو یقین دہانی کرواتا ہوں کہ ٹیکس سے بچنے کا کوئی کیس نیب کے پاس نہیں ہو گا ہم تمام کیسز ایف بی آر کو بھجوا دیں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بینک ڈیفالٹ کیسز میں جب تک بینک ہمارے پاس کس ریفر نہ کرے ہن نے کبھی براہ راست مداخلت نہیں کی ۔ان کا کہنا تھا کہ بینک ہمارے پاس اس وقت ریفر کرتا ہے جب فریقین کے ساتھ کی بات جیت اور مذاکرات مکمل ناکام ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج تک نیب نے کبھی کسی تاجر کے بارے میں شوقیہ کیس نہیں لیا کہ اس نے بینک ڈیفالٹ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی تجارت اور کاروبار کے لیئے تاجروں اور بینک کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بینک ڈیفالٹ کے کسی ایک کیس کا حوالہ بھی نہیں دیا جاسکتا کس میں نیب نے بینک کی مرضی کے بغیرکوئی بھی اقدام اٹھایا ہو۔ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ پاناما کے دیگر کیسز بھی چل رہے ہیں،کچھ کیسز میں باہر سے معلومات جلدی آگئیںاور وہ کیسز جلدی چل گئے اور کچھ ایسے کیسز ہیں جو چل رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کیا میں اپنی 35سالہ بے داغ عدالتی خدمات کے بعد کوئی ایسا اقدام اٹھائوں گا جو کسی کی خوشنودی کے لئے ہو۔ پہلی خوشنودی اللہ تعالیٰ کی درکار ہے اور دوسری کوشنودی پاکستان اور پاکستان کے عوام کے ساتھ ہے اورتیسرا بیچ میں بندہ ہی کوئی نہیں ہے۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ نیب کا حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے تو یہ 100فیصد غلط خیال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان کا پہلا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اور ہم کوئی غلط کام یہ سوچ کر نہیں کرتے کہ اس کام کی جوابدہی میں نے پرودگار کے سامنے کرنی ہے۔ ہمارا دوسرا تعلق پاکستان کے ساتھ ہے، پاکستان کی وجہ سے ہمارا تشخص ہے، جو کچھ ہمیں آج تک ملا وہ پاکستان کی وجہ سے ملا لہذا اس مرحلہ پر آکر انسان ملک کو اولین ترجیح نہ دے تو یہ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ ہم میں سے ہر شخص بشمول میرے ملک کا قرضدار ہے ، ملک نے آپ کے لئے بہت کچھ کیا ہے لیکن یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہم سب مل کر وہ سب کچھ نہیں کر سکے جو ہمیں کرنا چاہیئے تھا اور ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیئے اور اپنی غلطی تسلیم کرنے میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہوتا۔ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ اپنے دو سالہ بطور چیئرمین نیب دور میں نے کبھی کسی کا چہرہ نہیں دیکھا، آپ یہ تصور میں بھی یہ چیز نہیں لا سکتے تھے کہ فلاں ، فلاں بھی اس وقت نیب کے سوالوں کے جواب دے رہا ہو گا، نیب کی حوالات میں ہو گایا عدالتوں کا سامنا کر رہا ہوگا ۔ ان کا کہنا تھا کہ جو کریڈٹ نیب کو ملنا چاہیئے وہ نیب کو دینا چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں بہت سے مافیاز ہیں، آج ملک اقتصادی طور پر ایسے ہی مفلوج نہیں ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہمارا ملک 95ارب ڈالرز کا مقروض تھا اور ڈالر کی قیمت بڑھنے کے بعد اب 100ارب ڈالرز ہو چکا ہے، آپ کو یہ 100ارب ڈالرز کہاں خرچ ہوتا ہوا نظر آیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم میں سے کوئی شخص عقل قل ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا ، خامیوں سے پاک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ہماری آنکھیں کب کھلیں گی ، ہمیں کب ہوش آئے گا اور ہم کب اپنے ذاتی مفادات سے کب نکلیں گے اور ملکی مفاد ات کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیں گے ۔ان کا کہنا تھا وائٹ کالر کرائم لاہور سے شروع ہوتا ہے اور اسلام آباد سے ہوتا ہوا دبئی پہنچتا ہے اور پھر دوسری ریاستوں میں چلا جات ہے اور اس کے بعد ایک صبح پتہ چلتا ہے کہ فارم ہائوس او ر تمام جائیدادیورپ، امریکہ ، برطانیہ یا آسٹریلیا میں موجود ہے اور جب آپ دوسرے ممالک سے اطلاع مانگنے جاتے ہیں تو آپ کے ایک ہاتھ میں کشکول ہے تو آپ کس بنیاد پر وہاں جا کر ان سے برابری کی بنیاد پر بات کریں گے ، برابری کی بنیاد پر بات کر نہیں سکتے ،برابری کی بنیاد پر بات کرنے کے لئے ضرور ی ہے کہ آپ کا ان ممالک کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو۔ ہم نے ایک بہت سے چھوٹے ملک سے بھی جب چیزیں مانگیںتو اس نے بھی دینے سے انکار کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک پلی بارگین کی بات ہے تو جب تک میں اسے منظور نہ کروں یہ ہو نہیں سکتی ۔ ان کا کہنا تھا کہ مغلیہ شہنشاہوں کا دور گزر چکا ہے، نیب تاجروں اور عوام کی خدمت کے لئے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی تاجر یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں پلی بارگین میں اس کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وعدہ معاف گواہ بھی میری منظوری سے بنتے ہیں وہ کسی دھونس اور دھمکی سے نہیں بنتے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی تاجر یہ ثابت کر دے کہ اسے زبردستی وعدہ معاف گواہ بنایا گیا اور میری رضا اس میں شامل تھی تو میں ہر سزا کے لئے تیار ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہائوسنگ سیکٹر کے پاس زمین چار فٹ نہیں ہے اور آپ نے پیسے 50ہزار افراد سے لے لئے ۔ اگر میں نے یہ پوچھا کہ یہ پیسے کیوں لئے تو اس میں کون سا جرم ہوا۔ اخباروں میں اشتہار دیتے ہیں کہ ہائوسنگ سوسائٹی میں ہر سہولت موجود ہے اور لگتا ہے یہ سوئٹزرلینڈ کی کو ئی اسکیم ہے ۔ان لوگوں کے لئے کوئی رعائت نہیں ہے، آپ بیوائوں، یتیموں اور پینشنرز کو آج پیسے واپس کریں میں ان تما م سوسائیٹیز کے خلاف آج کیس واپس لینے کو تیار ہوں۔ یہ لوٹ مار نہیں بلکی کھلی ڈکیٹی ہے اور اگر نیب اس پر ایکشن لیتا ہے تو اس میں کون سی زیادتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے، میں نے بہت پہلے کہہ دیا تھا جو کرے گا وہ بھرے گا۔ دو تین روز پہلے میں ایک ٹی وی پروگرام دیکھ رہا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ آج تک نیب نے کیا کیا ہے، بھائی آپ مہربانی کر کے نیب سے پوچھ تو لیں نیب نے آج تک کیا کیا ہے ،انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی مثال نیب کے سامنے نہیں ہے کہ انہوں نے ایک ہوٹل میں کرپٹ افراد کو رکھا اور انہوں نے چار ہفتوں میں تمام واجبات ادا کر دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے چار گھنٹے کسی کو غیر قانونی رکھنے کی اجازت نہیں ہے ، وہاں بادشاہت ہے، شہنشاہیت ہے ، وہاں ان کے اپنے قوانین ہیں جو کہہ دیتے ہیں وہ قانون بن جاتا ہے ، میں نے اگر آج کسی کو گرفتار کیا ہے تو مجھ پر پابندی ہے کہ 24گھنٹے میں اسے عدالت میں پیش کروں، آپ مجھے وہ اختیارات دے دیں ، نیب کو وہ اختیارات دلا دیں انہوں نے چار ہفتے لئے تھے میں یہ تین ہفتے میں کر کے دکھا دوں گا۔ معمولی ، معمولی باتوں پر بھی نیب کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک طرف نیب ہے اور دوسری طرف انتہائی طاقتور مافیاز ہیں اور ان کوشش یہی ہے کہ اگر میری غیر جانبداری پر کبھی سوالیہ نشان نہیں رہا تو اجلے کپڑوں پر کچھ نہ کچھ تو داغ لگا دیئے جائیں۔ میں ساری کشتیاں جلا کر نیب میں آیا ہوں ۔جب سے نیب بنا ہے 342ارب روپے سے زیادہ لوٹی ہوئی رقم واپس لے کر قومی خزانہ میں جمع کروائی جا چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 22ماہ میں ہم 71ارب روپے کرپٹ عناصر سے وصول کر کے قومی خزانہ میں جمع کروا چکے ہیں۔ ہم اپنے اخراجات سے 50گنارقم واپس لوٹا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب ملک میں معیشت کی بہتری کے لئے ہر اقدام اٹھائے گی۔ ڈر اور خوف کی کوئی بات نہیں، آپ کے چیمبرز خود اپنا احتساب کریں۔