اسلام آباد ہائی کورٹ: الیکشن ایکٹ میں شامل ختم نبوت سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری
فیصلہ اسلام آباد ہا ئیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیر صدیقی نے تحریر کیا تفصیلی فیصلہ 172 صفحات پر مشتمل ہے حکومت فی الفور راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ پبلک کرے۔
دین اسلام اور آ ئین پاکستان مذہبی آ زادی سمیت اقلیتیوں کے تمام بنیا دی حقو ق کی ضمانت فرا ہم کر تا ہے، ریا ست پا کستان کے ہر شہر ی پر لازم ہے کہ و ہ اپنی شناخت در ست اور صحیح کوا ئف کے ساتھ جمع کرائے، کسی مسلم کو یہ اجا ز ت نہیں کہ و ہ اپنی شنا خت کو غیر مسلم میں چھپا ئے، بد قستمی سے اس وا ضح میعار کے مطا بق ضروری قانون سازی نہیں کی جا سکی، جس کے نتیجے میں غیر مسلم اقلیت اپنی اصل شنا خت چھپا کر ریا ست کو دھوکہ دیتے ہو ئے خود کو مسلم اکثر یت ظاہر کرتی ہے، جس سے نا صرف مسا ئل جنم لیتے ہیں بلکہ انتہا ئی اہم تقا ضو ں سے انحرا ف کی راہ بھی ہموا ر ہو جا تی ہے، اسٹیبلشمنٹ ڈویثرن کا یہ بیانیہ کہ سول سر وس کے کسی سو ل آفیسر کی اس حوالے سے مز ید شنا خت موجود نہیں، ایک المیہ ہے، یہ امر آئین پا کستان کی رو ح اور تقا ضوں کے منافی ہے، ختم نبو ت کا معا ملہ ہما رے دین کا اسا س ہے، پارلیمنٹ ختم نبو ت کے تحفظ کو یقینی بنا نے کے لئے اقدامات کرے، شنا ختی کارڈ برتھ سرٹیفیکیٹ، انتخا بی فہرستوں اور پاسپورٹ کے لئے مسلم اور غیر مسلم کے مذ ہبی شنا خت کے حوالے سے بیان حلفی لیا جا ئے، سرکاری، نیم سرکاری اور حساس اداروں میں ملازمت کیلئے بھی بیان حلفی لیا جائے، مردم شماری اور نادرا کوائف میں شناخت چھپانے والے کی تعداد خوفناک ہے، نادرا اور محکمہ شماریات کے ڈیٹا میں قادیانیوں کے حوالے سے معلومات میں واضح فرق پر تحقیقات کی جائیں، تعلیمی اداروں میں اسلامیات پڑھانے کیلئے مسلمان ہونے کی شرط لازمی قرار دی جائے، شناخت کا نا ہونا آئین پاکستان کی روح کے منافی ہے، الیکشن ایکٹ میں ختم نبوت کے حوالے سے ترمیم کی واپسی حکومت کی جانب سے احسن اقدام ہے، راجہ ظفر الحق کمیٹی نے انتہائی اعلی رپورٹ مرتب کی، رپو رٹ میں معا ملے کے تمام پہلوؤ ں کو انتہائی جامعیت، دیا نتداری اور دانش مندی کے ساتھ احا طہ کیا گیا، اب یہ پار لیمان پر منحصر ہے کہ وہ اس معا ملے پر مزید غور کرے،
مقدمے کے دورا ن تما م فا ضل وکلا قا نونی ما ہر ین اور مذہبی سکالر ز نے بھر پور معاونت کی، یہ عدا لت ان کی کا وشوں کا اعتراف کر تی ہے، مقد مے کے دوران تما م سر کاری افسرا ن جو مختلف اداروں سے تھے ان کا تعا ون قا بل تعر یف تھا، ڈپٹی آٹار نی جنر ل راجہ ارشد محمو د کیا نی نے مثا لی کر دار ادا کیا، جس سے عدا لت کو صحیح فیصلے پر پہنچنے پر مدد ملی