اصغر خان کیس: سپریم کورٹ نے ایوان صدر کو فریق بنانے کی اجازت دےدی. صدر اتحاد کی علامت ہے اس کا کام سیاسی سیل بنانا نہیں ملک کی سربراہی کرنا ہے۔ چیف جسٹس
سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق اصغر خان کی پٹیشن کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔ عدالت کے طلب کرنے پرسیکرٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر پیش ہوئے ۔ عدالت میں آئی ایس آئی میں سیاسی سیل نہ ہونے کے حوالے سے سیکرٹری دفاع کا دستخط شدہ بیان بھی پیش کیا گیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس کی سماعت میں بار بار کہاگیاکہ ایوان صدر سے کمانڈ آرہی تھی جسے ماننا پڑا،الیکشن خراب کرنے اور ایک پارٹی جتوانے کیلئے ایوان صدر میں سرگرمیاں نہیں ہونی چاہیئں۔ انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ آئینی سربراہ کی حیثیت سے صدر ، ایسی سرگرمیاں کیسے کرسکتا ہے،صدر کا کام سیاسی سیل بنانا نہیں ملک کی سربراہی کرنا ہے۔ اس موقع پر جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ صدر کو سیاسی سرگرمیوں میں کیوں ملوث نہیں ہونا چاہیئے، اسکا جواب یہ ہے کہ صدر، اتحاد کی علامت اور فوج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے، صدر سیاسی سیل بناتا ہے تو آرمی چیف آفس سمیت دیگر ماتحت اداروں کی پوزیشن متاثر ہوتی ہے۔ عدالتی حکم میں کہنا پڑے گا کہ ایسا کوئی سیل، ایوان صدر میں نہیں ہونا چاہیئے۔ سماعت کے دوران اصغر خان کے وکیل سلمان راجہ نے کہا کہ سیاسی سرگرمیاں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کا ذاتی فعل تھا، ایوان صدر سے پوچھا جائے کہ اس وقت وہاں سیاسی سیل تھا کہ نہیں۔ انہوں نے عدالت سے ایوان صدر کو فریق بنانے کی درخواست کی جسے منظور کرلیا گیا۔ سپریم کورٹ نے ایوان صدر کوپرنسپل سیکرٹری اور سیکرٹری انچاج کے ذریعے فریق بنانے کی اجازت دیتے ہوئے مقدمے کی مزید سماعت پندرہ اکتوبر تک ملتوی کردی۔