گرفتار ٹرمپ کی عدالت میں پیشی

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مین ہٹن کی ایک ریاستی عدالت میں خود پر عائد کیے جانے والے ان 34 الزامات کی صحت سے انکار کیا۔ ان الزامات کا تعلق 2016 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی سے قبل ایک پورن اداکارہ سٹورمی ڈینیئلز کو ایک دہائی قبل کے اس کے دعوی پر خاموش رہنے کے لیے ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر کی رقم کی ادائیگی سے ہے۔ یہ معاملہ 2016 کی صدارتی دوڑ سے کچھ روز قبل سامنے آیا تھا۔ وہ مجرمانہ کارروائی کا سامنا کرنے والے پہلے سابق امریکی صدر بن گئے ہیں۔ نیویارک کے علاقے مین ہیٹن کی عدالت میں پیشی کے دوران پولیس نے ٹرمپ کو گرفتار کیا جس کے بعد انھوں نے جج کے سامنے صحت جرم سے انکار کیا۔ عدالتی کارروائی کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا اور وہ اپنے نجی طیارے پر فلوریڈا روانہ ہوگئے۔ مین ہیٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی نے فرد جرم آن لائن شیئر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’ہم نیو یارک میں کسی کاروبار کو لین دین کا ریکارڈ بدل کر جرم پر پردہ ڈالنے نہیں دیں گے۔‘ ان الزامات کا تعلق پورن سٹار سٹورمی ڈینیئلز کو مبینہ طور چُپ رہنے کے لیے کی جانے والی رقم کی ادائیگی سے ہے۔ یہ معاملہ 2016 کی صدارتی دوڑ سے کچھ روز قبل سامنے آیا تھا۔ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انھوں نے سٹورمی ڈینیئلز کو 2016 میں ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر بطور رشوت دیے تھے۔ یقین نہیں آ رہا کہ یہ امریکہ میں ہو رہا ہے. 76 سالہ ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ پولیس کی حراست میں کمرۂ عدالت میں داخل ہونے پر سابق صدر نے جج کے سامنے کچھ نہیں کہا۔ٹرمپ کے سابق وکیل مائیکل کوہن کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ ادائیگی سابق صدر کی ہدایت پر کی جس کا مقصد ٹرمپ اور ڈینیئلز کے افیئر کو دبانا تھا۔ ڈینیئلز کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ٹرمپ کے ساتھ متعدد بار سیکس کیا تاہم ٹرمپ اس کی تردید کرتے ہیں۔چُپ رہنے کے لیے پیسے دینا غیر قانونی نہیں۔ تاہم مین ہیٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی اس ادائیگی سے جڑے کاروباری ریکارڈ کی بھی جانچ کر رہے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا اس میں کوئی جھوٹ بولا گیا ہے۔ٹرمپ پر جرم ثابت ہونے کے امکانات غیر واضح ہیں جبکہ انھوں نے ایک طرف تیسری بار صدارتی انتخاب لڑنے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے۔ یہ جرم ثابت ہونے کے باوجود ٹرمپ کو دوبارہ صدر بننے سے روکا نہیں جا سکتا تاہم اس سے ان کی سیاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’یہ مجھے گرفتار کرنے والے ہیں۔ یقین نہیں آ رہا کہ یہ امریکہ میں ہو رہا ہے۔ عدالت کے پاس ٹرمپ کے سینکڑوں حمایتی جمع ہیں جو ان کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی مخالفت کر رہے ہیں اور انھیں بے قصور قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ادھر ٹرمپ مخالف مظاہرین بھی موجود ہیں جو ان کے خلاف بینرز اٹھائے کھڑے ہیں۔مارچ 2018 میں نشر ہونے والے ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈینیئلز نے بتایا تھا کہ انھیں اس افیئر کے بارے میں بات نہ کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ ٹرمپ کی وکیل سوسن نیکلس نے جمعرات کی شام ایک بیان میں فرد جرم کی تصدیق کی اور کہا کہ ’ٹرمپ نے کوئی جرم نہیں کیا، انھیں سیاسی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہم عدالت میں بھرپور طریقے سے اس کا مقابلہ کریں گے۔‘