میری ایک کال پر لوگ آئیں گے، کال باہر سے بھی آئے گی اور اندر سے بھی آئے گی۔ سابق وزیراعظم
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں شریف خاندان کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت ہوئی، جج محمد بشیر کی علالت کے باعث سابق وزیراعظم کےخلاف ریفرنسزکی سماعت ڈیوٹی جج ملک ارشد نے کی،جس کے بعد ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت نو اپریل تک ملتوی ہو گئی، عدالت پیشی کے بعد سابق وزیراعظم نے احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا بار بار کہہ چکا ہوں اوپن ٹرائل ہونا چاہیے،عوام کو احتساب عدالت کی کارروائی براہ راست دکھائی جائے، ہم نے جج کو براہ راست کارروائی دکھانے کا کہا اور اپنی بات پر قائم ہیں، کبھی اپنے موقف سے ہٹے نہ کوئی یوٹرن لیا، مجھے جیل میں ڈالنا ہے ڈال دیں، کال باہر سے بھی آئے گی اور اندر سے بھی آئے گی۔ نوازشریف کا کہنا تھا کہ کل وزیراعظم سے ملاقات ہے،اس میں ایک تجویز دوں گا، نیب قانون صرف سیاستدانوں کو سزا دینے کیلئے بنایا گیا، جب اٹک جیل میں تھا تومجھے سزا دینے کیلئے نیب قانون بنایا گیا، ملک میں کسی قسم کی خرابی نہیں چاہتے،پاکستان میں خوشحالی کا سفر چلتا دیکھنا چاہتے ہیں، این اے ایک سو بیس میں ہمارے لوگوں کو اٹھایا گیا،،،سمجھ نہیں آتی سپریم کورٹ نے مجھے نا اہل کیوں کیا،دیکھ لیتے ہیں فیصلے سے کیا جزا اور سزا نکلتی ہے، نوازشریف نے کہا کہ سینیٹ میں خرید و فروخت ہوئی کیا سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا،کیا بلوچستان اسمبلی میں عدم اعتماد پرازخودنوٹس لیا گیا، یہ ملک کسی ایک صوبے کا نہیں، بیٹے سے تنخواہ لینے یا نہ لینے پرنا اہل کر دیا، عمران خان سب کچھ مان گئے مگر ان کے لیے کوئی اور قانون ہے، کرپشن کی ہوتی تو آج محمود اچکزئی اور حاصل بزنجو ساتھ نہ ہوتے۔ اس سے قبل کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ عوام کو پیغام دیتا ہوں کہ جو لوگ پیسے دے کر سینیٹر بنیں ان کو چھوڑ دیں، چیف جسٹس کے کل کے بیانات کہ الیکشن میں التواء نہیں ہوگا کو سراہتا ہوں، چیف جسٹس نےکل جو کہا اس پر عمل ہونا چاہیے۔