علیم خان کی گرفتاری کے بعد اپوزیشن اب کیا بہانہ بنائے گی،علیم خان نے فوری استعفی دیا اس سے کلچر کا واضح فرق نظر آتا ہے : فواد چوہدری
اسلام آباد:وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ علیم خان کی گرفتاری کے بعد اپوزیشن اب کیا بہانہ بنائے گی۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ جیسے ہی علیم خان کی گرفتاری کا کہا گیا تو انہوں نے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو اپنا استعفی بھیج دیا، جس طرح علیم خان نے فوری استعفی دیا اس سے کلچر کا واضح فرق نظر آتا ہے اب پتہ چلتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں کیا کلچر ہے اور باقی جماعتوں میں کیا ہے۔فواد چوہدری نے کہا کہ علیم خان کی گرفتاری کے بعد سمجھ نہیں آتا اپوزیشن اب کیا بہانہ بنائے گی، ہم احتساب کے عمل کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں، اداروں کا مضبوط ہونا پاکستان کے لیے مضبوطی کا باعث ہے۔قبل ازیں ڈیجیٹل میڈیا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ اخبارات کی بندش کی وجہ معیشت نہیں بلکہ ٹیکنالوجی ہے، ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ جدت آ رہی ہے، اب میڈیا کو جدید ٹیکنالوجی پر انحصار کرنا ہو گا اور مستقبل کیلئے ریسرچ کرنا ہو گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے میڈیا بجٹ کو بہت زیادہ بڑھا دیا تھا جب کہ اخبارات کی بندش کے باعث بے روزگاری کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔ چوہدری فواد حسین کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔وفاقی دارالحکومت میں ڈیجیٹل میڈیا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری فواد حسین نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ ایڈورٹائزر اب ٹی وی اور اخبارات کی جگہ ڈیجیٹل میڈیا میں اشتہار دینا پسند کرتے ہیں۔چوہدی فواد حسین نے کہا کہ پرنٹ میڈیا میں خلا کم ہوتا جا رہا ہے۔ اخبارات کی بندش کے باعث بیروزگاری کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے جس کی وجہ معیشت نہیں، ٹیکنالوجی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی وجہ سے میڈیا کی ہیت تبدیل ہورہی ہے۔ حکومت نے اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل میڈیا کو ایڈورٹائزنگ ٹول میں شامل کیا ہے، فواد چوہدری نے کہا کہ ٹیکنالوجی آنے کے بعد اب اخبار، ٹی وی اور ویب سائٹ میں کوئی فرق نہیں رہ گیا کیونکہ یہ سب کچھ آپ کو اپنے موبائل پر دستیاب ہوتا ہے اور ہمیں ریگولیٹری کی ضرورت تھی جو ان چیزوں پر نظر رکھ سکے۔انہوں نے ٹیکنالوجی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو کالم لکھنے اور خبر بنانے کے حوالے سے روایتی والے صحافت پڑھا رہے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں بتا رہے کہ ویب سائٹ کیسے بنتی ہے اور ویب ڈیسک کیسے بناتے ہیں۔اس موقع پر انہوں نے سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہم اے پی پی پر سالانہ 85 کروڑ روپے صرف کر رہے ہیں اور یہ 85 کروڑ روپے ہم ضائع کر رہے ہیں، لہذا میں نے اس ادارے کو ڈیجیٹل سروس آف پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا لیکن مجھے پتہ چلا کہ وہاں موجود دو تہائی عملہ اپنی ای میل بھی چیک نہیں کر سکتا اس لیے ہم انہیں نہیں کھپا پائیں گے۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ جن میڈیا ملازمین کو نکالا جا رہا ہے ان کی دادرسی کا بھی کوئی ادارہ نہیں، اس لیے ہمیں اس کی بھی ضرورت ہے تاکہ صحافیوں کی دادرسی کی جا سکے اور اس مقصد کے لیے ہم ایک ریگولیٹری باڈی بنا رہے ہیں۔انہوں نے میڈیا کے اداروں کو مشورہ دیا کہ وہ تحقیق کر کے اس بات کا پتہ چلائیں کہ جدید ٹیکنالوجی ہماری میڈیا کی صنعت پر کس طرح اثرانداز ہو گی کیونکہ یہ تبدیلی بہت زیادہ اثرانداز ہو رہی ہے اور آگے چل کر مزید اثرانداز ہو گی۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت آپ کے لیے ایک کلائنٹ ہے لیکن مسیحا نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو پھر میڈیا آزاد نہیں رہ سکے گا لہذا پہلا اصول یہ کہ میڈیا اپنے خرچے خود پورے کرے اور حکومت کے بجائے مارکیٹ کی قوتوں پر انحصار کرے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس مغالطے سے نکلنا ہو گا کہ حکومت سبسڈی دے کر کاروباروں کو تحفظ فراہم کرے بلکہ اس کی جگہ ہمیں جدید ٹیکنالوجی پر انحصار کرنا ہو گا