شاہد خاقان عباسی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 21 جنوری تک توسیع
ایل این جی کیس میں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 21 جنوری تک توسیع کردی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کیخلاف ایل این جی کیس کی سماعت احتساب عدالت میں ہوئی، بیرسٹرظفراللہ نےشاہد خاقان کی طرف سے بطوروکیل پیش ہونے کیلئے وکالت نامہ جمع کرادیا، عدالت میں ملزمان کی حاضری لگائی گئی۔شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل ، شیخ عمران الحق، آغا جان، سعید احمد،عامر، عظمی عادل، شاہد محمد، سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ملزم شاہد اسلام عدالت میں پیش نہ ہوئے۔مفتاح اسماعیل سمیت تین ملزمان نے حاضری سے استثنی کی درخواست دائر کردی جس پر عدالت نے نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئےحاضری کی استثنی کی درخواستوں پر 13 جنوری کو دلائل طلب کر لیے جبکہ احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 21 جنوری تک توسیع کردی۔ یاد رہے کہ 12 دسمبر کو قومی احتساب بیورونےرجسٹرار احتساب عدالت کے اعتراضات دور کرنے کے بعد ایل این جی ریفرنس دوبارہ دائر کیا تھا جسے احتساب عدالت نے باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کیا۔ ریفرنس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت 10 ملزمان کو نامزد کیا گیاہے ۔نیب نے 8 ہزار صفحات پر مشتمل ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیا ہے جبکہ ایل این جی ریفرنس احتساب عدالت نمبر ایک سے احتساب عدالت نمبر دو میں منتقل بھی کر دیا گیا۔ قبل ازیں بھی نیب کی جانب سے ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایل این جی ٹرمینل کا ٹھیکہ غیر قانونی تھا اور اس غیرقانونی ٹھیکے سے قومی خزانے کو 21 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا،ملزمان کرپشن اور کرپٹ پریکٹس میں ملوث ہیں ۔ ریفرنس میں شاہد خاقان عباسی کیخلاف 2 وعدہ معاف گواہ بھی سامنے آگئے تھے۔جن میں سابق سیکریٹری پٹرولیم عابد سعید اور ایل این جی کمپنی کے سابق سربراہ مبین صولت شامل ہیں۔تاہم رجسٹرار احتساب عدالت نے ریفرنس نیب کو واپس بھجوا دیا تھا ۔ واضح رہے کہ نیب نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو 18 جولائی کو لاہور سے گرفتار کیا تھا ،ان پر اربوں روپے مالیت کے ایل این جی کےغیر قانونی ٹھیکے دینے کا الزام ہے ۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2015 میں کم قیمت پر ایل این جی کے ٹھیکے دئیے جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ نیب نے انکشاف کیا کہ انہوں نے 220 ارب روپے کے ٹھیکے اس کمپنی کو دئیے جس میں وہ خود شیئر ہولڈر ہیں۔نیب نے 2016 میں کیس بند کر دیا تھا جبکہ 2018 میں کیس کو دوبارہ کھول دیا گیا۔