ہزارہ برادری شہیدوں کی تدفین کر دیں اور اسے وزیر اعظم کی آمد سے مشروط نہ کریں۔ جام کمال
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ ہزارہ برادری شہیدوں کی تدفین کر دیں اور اسے وزیر اعظم کی آمد سے مشروط نہ کریں، وفاق کی حیثیت سے وزیراعظم، صدر مملکت اور وزرا بھی آئیں گے لیکن 18ویں ترمیم کے بعد آپ تمام مسائل کا تعلق ہم سے ہے اور ہم ہی ذمہ دار بھی ہیں، ہم نے ان تمام مسائل کا حل خود تلاش کرنا ہے۔کوئٹہ میں وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہم ہزارہ برادری کے ساتھ حال ہی میں پیش آنے والے واقعہ کے حوالے سے بہت افسردہ ہیں، داعش جیسے عناصر اس طرح کے واقعات کر کے پاکستان میں چیزوں کو خراب کرتے ہیں، ایسے عناصر پاکستان، پاکستانی قوم اور یہاں کے امن کے دشمن ہیں اور اس میں بہت سارے ہاتھ ملوث ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں بیرون ملک سے واپس لوٹا ہوں اور ہم دھرنے والوں سے بات کریں گے، یہ ہمارے بھائی ہیں اور ہمیں ان سے بات کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے حوالے سے حکومت بلوچستان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور تمام لوگ پہلے دن سے اس کی پوری کوشش کررہے ہیں، پاکستان سے باہر لوگ ہماری کوششوں کو شاید نہیں سمجھ سکتے لیکن ہزارہ ٹائون، مری آباد اور کوئٹہ میں رہنے والے اس بات کی گواہی دیں گے کہ چیزوں کو انہوں نے کس طرح سے بہتر ہوتے ہوئے دیکھا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں امن کے قیام میں بہت کامیابی ملی اور صورتحال بہتر ہوئی لیکن اب یہ اس طرح کا واقعہ ہو گیا ، ہم نے اس شہر اور بلوچستان کے حوالے سے کام کیے جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہم بلوچستان، کوئٹہ اور ہر کمیونٹی کو ساتھ لے جانا چاہتے ہیں لیکن بہت پاکستان، بلوچستان اور اس کمیونٹی سے دشمنی رکھنے والوں یہ چیزیں پسند نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان اور پاکستان میں اس طرح کی چیزیں ہوں تاکہ وہ انہیں ایک رنگ دے کر خرابی کی طرف لے جائیں، اس صوبے اور شہر نے 10سال بہت مشکل وقت میں گزارے خصوصا ہزاری برادری اور کوئٹہ کے لوگوں نے بڑی مشکلات کا سامنا کیا اور کوئی نہیں چاہتا کہ اس طرح کے دور کی دوبارہ جھلک بھی نظر آئے۔ وطن واپس پہنچتے ہی احتجاج کرنے والوں سے ملاقات نہ کرنے کے حوالے سے سوال پر وزیر اعلی بلوچستان نے کہا کہ ہم یہاں اس لیے آئے ہیں تاکہ پوری ہزارہ برادری سے یکجہتی کا اظہار کرسکیں، ہم کسی گروپ یا سیاسی جماعت سے یکجہتی کا ااظہار نہیں کررہے بلکہ پوری برادری سے اس کا اظہار کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہم دھرنا اور احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ساتھ لواحقین کے پاس بھی جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وفاق کی حیثیت سے وزیراعظم، صدر مملکت اور وزرا بھی آئیں گے لیکن میری لواحقین سے درخواست ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد آپ تمام مسائل کا تعلق ہم سے ہے اور ہم ہی ذمہ دار بھی ہیں، ہم نے ان تمام مسائل کا حل خود تلاش کرنا ہے۔جام کمال خان نے کہا کہ یہ واقعہ پاکستان میں ایک کمیونٹی کے ساتھ ہوا ہے، جس طرح وزیر اعظم کی ذمہ داری پورے پاکستان میں ہر جگہ ہے، اسی طرح بلوچستان کے لیے بھی ہے اور وزیراعظم بلوچستان ضرور آئیں گے لیکن میری درخواست ہے کہ تدفین کو اس سے مشروط نہ کریں۔ان کا کہنا تھا کہ تدفین ہماری مذہی ذمے داری ہے، ہم جیسے بھی ہیں ہم مسلمان ہیں تو ہم پر دینی فرائض بھی ہیں تو ان دینی فرائض کو پورا کرتے ہوئے ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، پھر وزیر اعظم کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہو گی، وزیر اعلیٰ کو بھی کرنی ہو گی، وزرا کو بھی کرنی ہو گی۔اس موقع پر وفاقی وزیر برائے سمندری امور علی زیدی نے کہا کہ پاکستان کے بیرونی دشمن ملک میں اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اندر سے ہی میر جعفر اور میر صادق مل جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم جب حکومت میں نہیں تھے تو ہم سنتے تھے کہ بیرونی ہاتھ ہیں، میں آج حکومت کے اندررہ کر آپ کو ثبوت بھی دے دیتا ہوں، یہ کلبھوشن یادیو جیسے لوگ یہیں سے پکڑے گئے تھے، ان کے بیان آپ کو یاد ہونے چاہئیں کہ وہ کیا کہتے تھے۔انہوں نے کہاکہ پڑوسی ملک کا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کے بیانات دیکھ لیں کہ پاکستان میں کیسے تباہی کرنی ہے، وہ فالٹ لائنز میں کھیلتے ہیں اور میری عاجزانہ گذارش ہے کہ جو لوگ شہید ہوئے ہیں ان کو ہمیں اب دفنانا چاہئے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیر اعظم اور صدر مملکت آئیں گے اور وزیر اعلیٰ کا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ ان کی آمد سے تدفین کو مشروط نہ کریں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کے بارے میں ہم نے سوچا تھا لیکن جتنے بھی بیرون عناصر ہیں پاکستان ان کو شکست دے گا۔