برطانیہ میں بعض ممالک کے شہریوں کے ویزوں کو محدود کرنے پر غور کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد ان افراد کی آمد کو محدود کرنا ہے جو کام یا تعلیم کے لیے ویزہ حاصل کرنے کے بعد سیاسی پناہ کی درخواست دے دیتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی وزرا نے اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ کچھ ممالک سے آنے والے افراد ویزہ حاصل کرنے کے بعد ملک میں طویل قیام کرتے ہیں اور بعد ازاں سیاسی پناہ کی درخواست دے دیتے ہیں، جس سے برطانیہ کے امیگریشن نظام پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ برطانیہ کے ہوم آفس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال مجموعی طور پر ایک لاکھ آٹھ ہزار سے زائد افراد نے سیاسی پناہ کے لیے درخواست دی، جن میں سب سے بڑی تعداد پاکستانی شہریوں کی تھی، جن کی تعداد 10 ہزار 542 رہی۔ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر سری لنکا کے 2 ہزار 862 اور تیسرے پر نائجیریا کے 2 ہزار 841 شہری شامل تھے۔ مزید برآں، تعلیمی ویزوں پر آنے والے طلبہ میں بھارتی اور چینی طلبہ کی تعداد بھی خاصی زیادہ رہی، جہاں گزشتہ سال بھارت سے 1 لاکھ 7 ہزار 480 اور چین سے 98 ہزار 400 طلبہ برطانیہ پہنچے۔ رپورٹس میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر مجوزہ اقدامات نافذ کیے گئے تو پاکستان، نائجیریا اور سری لنکا کے شہریوں کے لیے برطانیہ آنا زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ کون سے ممالک کے شہری زیادہ دیر تک قیام کرتے ہیں، کیونکہ ہوم آفس کی جانب سے 2020 کے بعد سے متعلقہ ڈیٹا شائع نہیں کیا گیا۔ دریں اثنا، یوکے ان چینجنگ یورپ نامی تحقیقی ادارے سے وابستہ پروفیسر جوناتھن پورٹس کا کہنا ہے کہ ویزوں پر پابندیوں سے سیاسی پناہ کی درخواستوں میں خاطر خواہ کمی ممکن نہیں ہے۔
یوکے جانے کے خواہشمند افراد کیلے اہم خبر،برطانیہ کا بڑا فیصلہ
May 06, 2025 | 21:11