اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے پر عائد چارجز ختم کرانے پر غور کریں گے: سٹیٹ بینک آف پاکستان

لاہور(کامرس رپورٹر)سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے کہا ہے کہ وہ اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے پر عائد چارجز ختم کرانے پر غور کریں گے ۔انہوں نے اس امر کا اظہار گزشتہ روز لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں بزنس کمیونٹی کے اجلاس میں خطاب کے بعداخبار نویسوں سے غیر رسمی گفتگو میں کیا ہے ۔واضح رہے کہ اس وقت صارفین کو دوسرے بینک کی اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے پر سروس چارجز ادا کرنے پڑتے ہیں ۔قبل ازیں گورنر سٹیٹ بینکڈاکٹر رضا باقر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سٹیٹ بینک کاروباری برادری کے ساتھ تعاون میں اضافہ کرنا چاہتا ہے اور ایسے شعبوں جن کو پہلے توجہ نہیں دی گئی جیسے ایس ایم ایز اور خواتین انٹر پرینیور کی خدمت کے لئے پرعزم ہے۔ صدر لاہور چیمبر میاں طارق مصباح، سینئر نائب صدر ناصر حمید خان، نائب صدر طاہر منظور چوہدری، صدر سارک چیمبر آف کامرس افتخار علی ملک، سابق صدور میاں مصباح الرحمن، طاہر جاوید ملک، عبدالباسط، سابق سینئر نائب صدر امجد علی جاوا، خواجہ خاور رشید، سابق نائب صدر ذیشان خلیل، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سیما کامل، مرتضیٰ سید، چیف منیجر، سٹیٹ بینک جاوید اقبال مارتھ، ڈائریکٹر ایکسچینج پالیسی ڈیپارٹمنٹ اسٹیٹ بینک ارشد بھٹی اور لاہور چیمبر کے ایگزیکٹو کمیٹی ممبران بھی موجود تھے۔گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ سٹیٹ بینک ڈیجیٹل فنانشل سروسز پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کررہا ہے اور ایسا نظام لا رہا ہے جہاں سیکنڈوں میں ادائیگی ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ شرح سود میں 6 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور ایکسچینج ریٹ جو پہلے فیکسڈ ہوتا تھا یا اوپر جاتا تھا اب دو طرفہ ترتیب سے چل رہا ہے، جون2019میں ڈالر کی قیمت 163روپے تھی جو آہستہ آہستہ 154روپے پر آیا تاہم کرونا کے باعث جب کرنسیوں پر دباﺅ آیا تو ڈالر 168روپے تک پہنچا اب پھر 159روپے پر آگیا ہے ۔ڈاکٹر رضا باقر نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں، COVID-19 سے متاثرہ کاروباروں کی سہولت کے لئے اسٹیٹ بینک نے سود کی شرح میں کمی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے تقریبا 650 بلین روپے کی اصل ادائیگی ملتوی کی ہے جن میں سے 90 فیصد فائدہ اٹھانے والے چھوٹے کاروباری (مائکرو فنانس بینکوں کے قرض لینے والے) ہیں۔انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک الیکٹرانک کریڈٹ انفارمیشن بیورو (ای سی آئی بی) سے متعلق لاہور چیمبر کے مطالبات پر مناسب غور کر رہا ہے اور اس پر پالیسی کا اعلان آنے والے چند دنوں میں کیا جائے گا۔ڈاکٹر رضا باقر نے کہا، ''کاروبار کو ان کی مارک اپ ادائیگیوں میں معاونت کے لئے 200 ارب روپے کے قرضوں کی تنظیم نو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم روزگار فنانس اسکیم کے تحت 232 ارب روپے ملازمین کی تنخواہوں کے لئے دیئے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام سکیموں نے تقریبا سے ایک کھرب روپے کی ریلیف فراہم کی ہے۔گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ کاروباری (ٹی ای آر ایف) 30 مارچ 2021 ء تک حاصل کرسکتے ہیں۔ ٹی ای آر ایف کے تحت وہ 5 فیصد سود پر 10 سال کے لئے طویل مدتی قرض حاصل کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کمرشل بینکوں کو دسمبر 2021 تک ہاوسنگ فنانس کو قرض پورٹ فولیو کا5 فیصد دینے کا پابند کیا ہے۔ اس سے 20 سے 30 کنسٹرکشن سیکٹر سے متصل شعبوں کو مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کی سہولت بیرون ملک مقیم پا کستانیوں کو فراہم کی جارہی ہے جس کے ذریعے بغیر سفارتخانے جائے اور کسی بھی دستاویز کی تصدیق کے بغیر اکاونٹ کھولا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیرون ملک اثاثوں والے پاکستانی بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ پاکستان کریڈٹ گارنٹی کارپوریشن قائم کی جارہی ہے جس کے ذریعے بینک ایس ایم ایز کو قرض دینے پر 60 فیصد رسک کور حاصل کریں گے، مارک اپ سبسڈی اسکیم کے تحت چھوٹے مکانوں کو 3 سے 5 فیصد تک مالی اعانت فراہم کی جائے گی۔لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر نے کہا کہ ایسے بہت سارے کاروبار ہیں جو موجودہ لیکویڈیٹی بحران کی وجہ سے وقت پر اپنے بینک ادائیگوں کو ختم نہیں کرسکتے ہیں۔ان کے نام الیکٹرانک کریڈٹ انفارمیشن بیورو (ای سی آئی بی) میں شامل ہیں۔ اس سے ان کو کسی مالیاتی ادارے سے قرضہ حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم سٹیٹ بینک سے جون 2021 تک اس شرط میں نرمی کی درخواست کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ صارفین بینکوں کی پوری ادائیگی کے بعد بھی ان کے نام ای سی آئی بی میں تحریری طور پر درج ہیں۔ اس معاملے پر آپ کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام بینکوں کے صارفین کو بھی ای سی آئی بی ڈیٹا بیس میں اپنی حیثیت کی جانچ کرنے کے لئے رسائی دی جانی چاہئے اور بینکوں کو ای سی آئی بی میں کسی حد سے زیادہ واجبات کی اطلاع دینے سے پہلے صارفین کو مطلع کرنا چاہئے اور ان سے واجب الادا قرضوں کی بحالی اور ان کے حل کے لئے مناسب وقت دینا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں چھوٹے تاجروں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے اور سٹیٹ بینک کو بلا سود قرضوں کی نئی سکیمیں وضع کرنا چاہئیں جس سے تاجروں کو ان کے کاروبار کو بحال کرنے میں مدد ملے۔ اور ہائوسنگ سیکٹر میں قرضے بڑھانے کے لئے بینکوں کو ایک قابل عمل ڈھانچہ تیار کرنا چاہئے۔میاں طارق مصباح نے کہا کہ علاقائی معیشتوں کے مقابلے میں سود کی شرح کو 7٪ سے گھٹا کر 5٪ کیا جانا چاہئے۔ علاقائی سود کی شرحیں (جیسے ہندوستان 4٪، بنگلہ دیش 4.75٪، چین 3.85٪، اور سری لنکا 4.5٪) ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ مراعات جو فی الحال پانچ زیرو ریٹڈ شعبوں کو فراہم کی گئیں ہیں وہ بھی دیگر برآمدی شعبوں کو فراہم کی جائیں۔ مثال کے طور پر چاول، حلال گوشت، پراسیسسڈ شدہ خوراک، انجینئرنگ اور دواسازی وغیرہ۔انہوں نے کہا کہ حالیہ سٹیٹ بینک کی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے قرضوں کی فراہمی کی سکیم میں، بینکوں نے ایسے کاروبار میں سہولت فراہم نہیں کی جو قرضوں میں ڈیفالٹ ہوچکے تھے۔ چونکہ اس سکیم کا مقصد معاشرے کے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو سہارا دینا تھا اور کاروباری اداروں کی سہولت فراہم کرنا تھا، لہذا ہم آپ سے درخواست کریں گے کہ کاروباری افراد کے لئے ایک خصوصی سکیم کا اعلان کریں جو پہلے سے طے شدہ خرابیوں کی وجہ سے کریڈٹ سہولت کا فائدہ نہیں اٹھا سکے تھے۔لاہور چیمبر کے سینئر نائب صدر ناصر حمید خان نے کہا، ''ہم سٹیٹ بینک سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کمرشل بینکوں کو ہدایت کریں کہ وہ اپنے موکلوں سے اعلان کردہ انوائس ویلیو اور قیمت کا فرق کے بارے میں حلف نامہ طلب نہ کریں۔ اس مشق سے کاروباری برادری کو بہت زیادہ تکلیف ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ روس اور وسطی ایشیا جیسی غیر استعمال شدہ ممکنہ مارکیٹوں میں ہماری برآمدات بڑھانے کے لئے، ترجیحی بنیادوں پر باضابطہ بینکنگ چینلز قائم کیے جائیں۔ ہم سٹیٹ بینک سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنی تجارت کو بڑھانے کے لئے ایک خاص طریقہ کار وضع کرے۔نائب صدر لاہور چیمبر طاہر منظور چوہدری نے کہا کہ 2018 میں، تجارتی درآمد کنندگان کو 000 10 ڈالر کی پیشگی ادائیگی کے خلاف درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ وعدے کے مطابق اس حد کو000 20 ڈالر تک بڑھانے کے بجائے اس کی اجازت ہی نہیں دی گئی ہے۔ برائے مہربانی اس فیصلے پر دوبارہ غور کریں۔