ایران کے نئے صدر نے اپنا عہدہ سنبھال لیا۔
ایران کےسابق جج ابراہیم رئیسی نے جون میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایران کے نئے صدر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ جون کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح انتہائی کم رہی تھی، جب کہ مقابلے میں حصہ لینے کے خواہش مند متعدد اہم امیدواروں کو پہلے ہی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ رئیسی نے جمعرات کے روز صدارت حلف اٹھاتے ہوئے کہا، "میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سرکاری مذہب اور انتظامیہ اور آئین کی حفاظت کا حلف اٹھاتا ہوں"۔ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے والوں میں افغانستان کے صدر اشرف غنی، عراق کے صدر برھم صالح اور یورپی یونین کے خارجہ امور کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل انرکی مورا بھی شامل تھے۔ حماس کے لیڈر اسماعیل ھنیہ اور حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نعیم قاسم بھی اس موقع پر موجود تھے۔ رئیسی نے ایک ایسے موقع پر ایران کی صدارت سنبھالی ہے جب ایران کو بڑے پیمانے پر اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے جن میں امریکہ کی عائد کردہ پابندیاں بھی شامل ہیں۔ رئیسی نے منگل کے روز اپنی ایک تقریر میں امریکہ کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کو 'ظالمانہ' قرار دیا تھا اور کہا تھا وہ انہیں ختم کروانے کی کوشش کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ 'ملک کی معیشت کو غیرملکیوں کی خواہش کے تابع' ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے پابندیوں میں نرمی کے بین الاقوامی معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران پر 2018 کے شروع میں پابندیاں لگا دی تھیں۔ دونوں فریقوں کے درمیان نئے سمجھوتے کے ذریعے جوہری معاہدے پر عمل درآمد کی جانب لوٹنے سے متعلق بالواسطہ بات چیت ہو چکی ہے۔ ایران کو کرونا وائرس کی وبا کے شدید دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے جہاں اس ہفتے ریکارڈ تعداد میں نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ رئیسی کو 2019 میں ایران کے عدالتی نظام کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ اسی سال نومبر میں امریکہ نے رئیسی کو 1988 میں ہزاروں سیاسی قیدیوں کو موت کی سزائیں دینے میں ملوث ہونے کی بنا پر ان پر پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔