مشال خان کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم نے مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام پر تشدد کر کے قتل کر دیا تھا

صوابی سے تعلق رکھنے والے تئیس سالہ مشال خان کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم نے مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام پر تشدد کر کے قتل کر دیا تھا۔ گزشتہ برس تیر ہ اپریل کو پیش آنے والے واقعے کی سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز جاری ہوئی تھیں۔ پولیس اور حکومت سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو کلپس کے بعد حرکت میں آئیکیس میں اکسٹھ ملزمان کو نامزد کیا گیا۔ پولیس نے اٹھاون نامزد ملزمان کو گرفتار کیا۔ گرفتار ملزمان میں مشال پر فائرنگ کا اعتراف کرنے والا ملزم عمران بھی شامل ہے۔ کیس میں نامزد اہم ملزم پاکستان تحریک کا کونسلر عارف، طلباء تنظیم کا رہنما صابر مایار اور یونیورسٹی کا ایک ملازم اسد ضیاء فرار ہیں۔ ستمبردوہزار سترہ سے جنوری دوہزار اٹھارہ تک کیس کی پچیس سماعتیں ہوئیں جن میں اڑسٹھ گواہ پیش ہوئے۔ ہری پور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج فضل سبحان نے مشال خان قتل کیس کا فیصلہ گزشتہ ماہ ستائیس جنوری کو محفوظ کیا تھا