افریقہ میں چین کی60 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری
صرف ایشیا ہی نہیں چین انسانی ترقی کے شعبے میں اس کے ثمرات کو یورپ اورافریقہ تک لے جانے میں مصروف ہے ۔صدر شی جن پنگ کا عہد اس لحاظ سے اس لئے بھی توجہ کا مرکز ہے کہ انہیں دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت کے اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کسی میعاد عہدہ کی بندش سے آزاد کر دیا گیا ہے ۔ بیجنگ میں ہونے والی افریقی ممالک اور چین کے مشترکہ فورم کی کانفرنس ان دنوں دنیا بھر کے ممالک کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے ۔ 53افریقی ممالک میں چین کی سرمایہ کاری تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہے جس کے لئے چین کی حکومت اور اس کے مالیاتی اداروں نے 60بلین ڈالر کا ہدف مقرر کیا ہے۔
جنوبی افریقہ جسے اقوام عالم میں نسلی تعصب کا سامنا رہا ہے نے کانفرنس کے رکن ممالک کے لئے اس کے برابری کی سطح پر فوائد اورتوازن برقراررکھنے کی توقع کا اظہار کیا ہے ۔صدر سیرل راما فوسا جو اس کانفرنس میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ شریک سربراہ کے طور پر شرکت کر رہے ہیں نے واضح کیا ہے کہ چین تجارت کے علاوہ براعظم افریقہ میں کثیر سرمایہ کاری کر رہا ہے ۔جس کے لئے چینی صدر نے اپنے ملک کی سرمایہ کار کمپنیوں سے اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنے کے لئے زور دیا ہے ۔60بلین ڈالر کے اس سرمایہ میں گرانٹس ، سپیشل فنڈ،قرض اور اگلے تین برسوں کے دوران براہ راست سرمایہ کاری کے لئے رقوم کا اعلان کیا شامل ہے ۔
بیجنگ سمٹ میں شریک رہنما گول میز کانفرنس کے دوران چین اور افریقی ممالک کے تعلقات ، مشترکہ دلچسپی کے بین الاقوامی امور اور علاقائی معاملات کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے۔ اجلاس میں چین اور افریقہ مل کر خوشحال معاشرے کے قیام اور باہمی تعاون کے فروغ کے لئے بیجنگ ایکشن پلان برائے 2019 تا2021 کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جائے گا۔قبل ازیں چین ،افریقہ تعاون فورم کی بیجنگ سمٹ میں شریک رہنماوں کی گول میز کانفرنس بیجنگ کے عظیم عوامی ہال میں منعقد ہوئی۔ چین کے صدر مملکت شی جن پنگ اور فورم میں شریک افریقی ممالک کے مشترکہ چیئرمین جنوبی افریقہ کے صدر راما فوسا نے گزشتہ روزصبح اور سہ پہر کے اجلاسوں کی الگ الگ صدارت کی۔
چینی صدر شی جن پنگ نے پیر کے روز چند افریقی رہنماو¿ں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کی ان کے برِاعظم میں سرمایہ کاری کی کوئی سیاسی شرائط نہیں ہیں۔اس موقعے پر صدر شی جن پنگ نے چین کی جانب سے افریقہ میں 60 ارب ڈالر کی ترقیاتی منصوبوں میں مزید سرمایہ کاری کا اعلان بھی کیا۔ جو 2015 کی جاری کردہ سرمایہ کاری کے علاوہ ہو گی۔
واضح رہے کہ چین پر غیر ملکی سطح پر بہت زیادہ قرضوں سے لدی سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے تنقید کی جا چکی ہے۔
صدر شی نے یہ اعلان دو روزہ چین۔افریقہ سربراہی اجلاس کے آغاز پر کیا جس میں توجہ کا مرکز ان کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ہے۔
یاد رہے کہ 60 ارب ڈالر کی مذکورہ سرمایہ کاری چین کی جانب سے 2015 میں افریقہ میں سرمایہ کاری کرنے کے منصوبوں سے علاوہ ہے اور یہ آئندہ تین برسوں کے دوران کی جائے گی۔ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا مقصد چین کی غیر ملکی مارکیٹوں تک رسائی کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر چینی اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔ چین نے ایشیا اور افریقہ میں سڑکوں، ریلوے کی پٹریوں اور بندر گاہوں پر اربوں ڈالر لگا دیے ہیں۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ چینی سرمایہ کاری کچھ ممالک کو قرضوں تلے دباتی چلے جا رہی ہے۔
چینی صدر کا کہنا تھا کہ ’چین کے افریقہ کے ساتھ تعاون کا واضح ہدف تعمیر و ترقی کے کاموں میں حائل مسائل کو ختم کرنا ہے۔ ہمارا تعاون اور اس سلسلے میں مہیا کئے جانے والے وسائل کسی شاہانہ منصوبوں میں صرف نہیں کئے جا رہے بلکہ انھیں ایسے منصوبوں میں لگانا بنیادی مقصد ہے ،جہاں ان سے زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔
تاہم صدر شی نے اعتراف کیا کہ کچھ منصوبوں کی تجارتی افادیت پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے، جس کے نتیجے میں یہ تعاون دیر پا رہ سکے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ون بیلٹ ون روڈ کوئی بلاک یا مخصوص کلب بنانے کی کوشش نہیں ہے۔ بعد میں انھوں نے فورم آن چائنا افریقہ کو پوریشن کی ایک تقریب میں اعلان کیا کہ چین متعدد صنعتوں میں آئندہ تین سالوں میں 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
انھوں نے غریب ترین افریقی ممالک کے لیے بغیر سود کے قرضوں کا اعلان بھی کیا۔
چینی صدر کے بیجنگ سمٹ سے خطاب پر افریقی رہنماﺅں نے ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔افریقہ کے مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بیجنگ سمٹ میں چینی صدر مملکت شی جن پنگ کے خطاب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہارکیا ہے۔ افریقہ کے مختلف حلقوں نے شی جن پھنگ کے خطاب کی بہت زیادہ تعریف کی ہے اور کہا کہ اس خطاب سے دی بیلٹ اینڈ روڈ کی تعمیر میں افریقی ممالک کی شراکت داری اور چین کے ساتھ مل کر قریبی تعاون کرتے ہوئے چین افریقہ ہم نصیب معاشرے کے قیام کے لئے راستہ ہموارکر دیا گیا ہے۔ کینیا کے تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ برائے جمہوریت اور قیادت کے ایگزیکٹو ڈینس کوڈی کا کہنا ہے کہ باہمی رابطے اور تعاون کے ذریعے افریقی ممالک کو غربت سے چھٹکارا دلانے اور جدت کی جانب آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔ چینی صدر شی جن پنگ کے جاری کردہ پروگرام کے تحت افریقہ میں تصادم سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔
زمبابووے کے انسیٹٹیوٹ برائے جمہوریت کے سربراہ پیزسر روہانیا نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مختلف ممالک کو اپنی قومی خصوصیات کے مطابق مختلف سیاسی نظام کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے مغربی ممالک کے برعکس اپنے ترقی کے طریقہ کار کو تسلیم کرانے کے لئے دوسرے ممالک کو کبھی مجبور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ چین نے بغیر کسی سیاسی شرط کے دوسرے ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کی اور تعاون کیا اور یہی وجہ ہے کہ بیشتر افریقی ممالک چین کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح تنزانیہ کی کانگریس کے رکن دلاری کوم نے کہا کہ یہ خطاب افریقہ چین اقتصادی و تجارتی تعلقات کے مسلسل فروغ کی ضمانت ہے۔