نوائے وقت گروپ کے انگریزی اخباردی نیشن کےمطابق لاہور سے ساٹھ کلومیٹر دور گائوں حسین خانوالہ میں سکول جانیوالی لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا گینگ بچوں کے گھر والوں کو بلیک میل کر کے بھتہ بھی وصول کرتا رہا۔پینتیس سالہ ثریا بی بی نے اپنے چودہ سالہ بیٹے کی ویڈیو کو ختم کرانے کیلئےزیور بیچ کر بلیک میلرز کو ساٹھ ہزار روپے ادا کئے۔ ثریا بی بی نے بتایا کہ ملزمان نے دوہزار گیارہ میں ان کے بیٹے کی ویڈیو بنائی وہ چار سال سےملزمان کو رقم اداکررہی ہیں۔ایک اور متاثرہ بچے کی ماں نے ایک سال قبل گنڈا سنگھ والا پولیس سے رابطہ کیا مگر اسے خاموش کرا دیا گیا۔مبینہ طور پر بیس سے پچیس افراد کے گروپ نے گذشتہ برس کےدوران جنسی ہراساں کئے جانے کے معاملےمیں بچوں کی چارسو کے قریب نازیبا ویڈیوز بھی بنا لی تھیں۔ متاثرہ بچوں کے لواحقین نے الزام عائد کیا کہ ملزمان گھناؤنے عمل کی ویڈیو بنا کر برطانیہ، امریکہ اور یورپ میں فروخت کرتے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ مقامی ایم پی اے کے دباو پر پولیس نے پچاس لاکھ روپے رشوت کے عوض مرکزی مشتبہ شخص کو رہا کر دیا ہے اور مقامی سیاستدان متاثرہ افراد پر کیسز واپس لینے کا دبائو بھی ڈال رہے ہیں۔
قصور کے نواحی گاؤں میں بچوں سے زیادتی کے واقعات پراہل علاقہ میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے
نواحی گاؤں حسین خاں والا میں بچوں سے زیادتی کے متعدد واقعات سامنے آنے پرمتاثرہ بچوں کے لواحقین اور اہل علاقہ میں شدید اشتعال پیدا ہوگیا۔چاراگست کو بچوں کے لواحقین کی جانب سےبچوں سے جنسی تشدد کے واقعات کیخلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ متاثرین ٹولیوں کے صورت میں پُل دولیوالی کے قریب جمع ہو گئے جہاں پولیس اور مظاہرین کا آمنا سامنا ہوگیا،جھڑپ کےدوران ڈی ایس پی سٹی سرکل حسن فاروق گھمن، صدر سرکل قصور مرزا عارف رشید، ایس ایچ او گنڈا سنگھ والا مہر محمد اکمل، ایس ایچ اور بی ڈویژن ملک کفایت حسین ، ایس ایچ او اے ڈویژن ملک طارق محمو اورسترہ اہلکار زخمی ہوگئے۔مظاہرین کی پولیس سے جھڑپ کے دوران دو ڈی ایس پی، تین ایس ایچ اوز اور سترہ اہلکاروں سمیت اکتیس افراد زخمی ہوگئے.متاثرین کا کہنا تھا کہ پولیس ملزمان کے ساتھ ملی بھگت کر کے کیس کو کمزورکررہی ہے۔ڈی پی او ،ڈی سی او اور دیگر نے مظاہرین کے نمائندوں سے مذاکرات کئے جس میں ایس ایچ او گنڈا سنگھ مہر محمد اکمل کو فوری طور پر معطل کرنے اور مقدمات میں نامزد ملزمان کے خلاف مؤثر کارروائی اور میرٹ پر تفتیش کرنے کے معاہدہ پر مظاہرین پُرامن منتشر ہوگئے
پنجاب میں کمسن بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانا روز کا معمول بنتا جا رہا ہے
پنجاب میں معصوم بچوں کو ہوس کا نشانہ بنانا معمول کی بات ہے۔ دلخراش واقعات جہاں معاشرے پر بد نما داغ ہیں، وہیں حکومتی کارکردگی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ چند روز قبل ہڈیارہ میں جلادوں نے بارہ سالہ بچے کو زیادتی کا نشانے کے بعد قتل کر دیا اور لاش درخت پر لٹکا دی۔ پولیس نے تحقیقات تو شروع کی مگرتاحال کچھ نہ ہو سکا ۔ معصوم بچے کے والدین صرف دلاسوں کے سہارے ہی زندہ ہیں۔ دو ہزار تیرہ میں گنگا رام ہسپتال لاہور سے پانچ سالہ بچی کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ وزیراعلٰی پنجاب نے نوٹس لیا تو پولیس بھی حرکت میں آ گئی۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز اور گواہان سے پوچھ گچھ کی گئی مگر معاملہ طوالت اختیار کر گیا۔ چند ماہ گزرنے کے بعد بالآخر ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔ مری میں بھی انسانیت سوز واقعہ پیش آیا۔ دو جولائی کو درندہ صفت نوجوان نے پانچ سالہ بچے کی معصومیت کو روند ڈالا۔ پولیس کی کارروائی کچھوے کی چال کی طرح سست ہے اور ملزم تاحال قانون کی گرفت سے باہر ہے ۔ تمام واقعات نے حکومتی اور سرکاری مشینری اور حکومتی کارکردگی کو ایکسپوز کر دیا ہے۔۔
پاکستان میں پولیس کی مایوس کن کاردگی جہاں دوسرے جرائم میں اضافے کا سبب بن رہی ہے وہاں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ملک بھر میں روزانہ دس بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
غیر سرکاری تنظمیوں کی جانب سے جاری اعدودشمار کےمپاکستان میں پولیس کی مایوس کن کاردگی جہاں دوسرے جرائم میں اضافے کا سبب بن رہی ہے وہاں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ملک بھر میں روزانہ دس بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔طابق گزشتہ برس ملک میں
3508 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا،سب سے زیادہ جنسی تشدد کے واقعات پنجاب اور سندھ میں ہوئے۔زیادتی کا نشانہ بنائے گئے بچوں میں
1367لڑکے 2141لڑکیاں شامل ہیں ،ان کیسوں میں 821لڑکے اور 1010لڑکیاں اغواء کی گئیں، پاکستان میں تقریباً دس بچے روزانہ جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، سب سے زیادہ جنسی تشدد کے واقعات صوبہ پنجاب میں ہوئے پنجاب میں 2054، سندھ میں 875، بلوچستان میں297 ، کے پی کے میں152 جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں90 اور آزاد کشمیر میں 38 واقعات رپورٹ ہوئے۔