مودی کا عروج یا زوال؟ منگل کو فیصلہ ہو جائے گا
نومبر اور دسمبر میں کئی مرحلوں میں انڈیا کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالنے کا عمل پورا ہو چکا ہے۔ ان میں سے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی اقتدار میں ہے۔جنوبی ریاست تلنگانہ میں ایک علاقائی جماعت اقتدار میں ہے جب کہ شمال مشرقی ریاست میزورم میں کانگریس برسراقتدار ہے۔ ان ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی منگل کی صبح ایک ساتھ شروع ہو گی اور شام تک سبھی نتائج آجانے کی توقع ہے۔یہ انتخابات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب اب سے چند مہینے بعد پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی مدت میں اب صرف چند مہینے باقی بچے ہیں۔
دوسری جانب ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد و بجرنگ دل جیسی ہندوتوا کی تنظیمں یہ توقع کر رہی تھیں کہ واضح اکثریت سے اقتدار میں آنے والی بی جے پی ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا آغاز کرے گی۔ یہ تنظیمیں اب بیچین ہو رہی ہیں۔ وہ یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ مودی حکومت مندر کی تعیمر کے لیے ایک خصوصی آرڈیننس جاری کرے۔ماضی میں بی جے پی کو مندر کی تحریک سے سیاسی اور انتخابی فائدہ پہنچا ہے۔ کیا وہ آئندہ پارلیمانی انتخاب جیتنے کے لیے ایک بار پھر مندر کا سہارا لے گی؟ کیا مندر کے سوال سے اسے ایک بار پھر سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا واضح جواب خود اس وقت بی جے پی کے پاس بھی نہیں ہے لیکن اس کا آئندہ پارلیمانی انتخاب سے گہرا تعلق ہے۔مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی 15 برس سے اقتدار میں ہے۔ راجستھان میں وہ پانچ برس پہلے اقتدار میں آئی تھی۔ وہاں گذشتہ 25 برس سے کوئی بھی جماعت مسلسل دو بار جیت نہیں حاصل کر سکی ہے۔ میزورم میں کانگریس اقتدار میں ہے اور جنوبی ریاست تلنگانہ میں وہاں کی ایک علاقائی جماعت بر سراقتدار ہے۔
منگل کے انتخابی نتائج بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔اگر بی جے پی ایک بار پھر مدھیہ پردیش اور راجستھان میں جیت جاتی ہے تو پارلیمانی انتخابات کے لیے یہ اس کی بہت بڑی نفسیاتی اور سیاسی کامیابی ہو گی۔ یہ جیت شکستہ کانگریس کو اور زیادہ پست کر دے گی اور پارٹی کے رہنما راہل گاندھی کی قیادت اور انتخابی اہلیت کے بارے میں دوسری سیاسی جماعتوں کے شکوک مزید پختہ ہو جائیں گے۔اس کے ساتھ ہی بی جے پی کے لیے پارلیمانی انتخاب میں اپوزیشن کا چیلنج ایک کمزور اور شکستہ مزاحمت سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ ہندوتوا کا نظریہ نئی حکومت کے سیاسی فلسفے اور اصول کا محور ہو گا۔لیکن اگر کانگریس بی جے پی کے اقتدار والی ان دو ریاستوں میں حکمراں جماعت سے اقتدار چھینے میں کامیاب ہوجا تی ہے تو اسے آئندہ پارلیمانی انتخابات اور قومی سیاست میں اس کی ایک موثر اور فیصلہ کن واپسی سے تعبیر کیا جائے گا۔کانگریس کے حق میں یہ نتیجے ملکی سیاست کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ راہل گاندھی کی قیادت کی اہمیت بڑھ جائے گی اور ملک کی شمالی ریاستوں میں بی جے پی کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کے راستے ہموار ہو جائیں گے۔ بی جے پی کی مشکلیں بہت بڑھ جائیں گی۔ اسے پارلیمانی انتخاب کے لیے ایک نئی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔سیاست امکانات کا کھیل ہے۔ سیاست میں مستقل کچھ بھی نہیں ہے اور اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ منگل کو پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج ملک میں سیاسی ہلچل پیدا کر سکتے ہیں