پی آئی اے کیس:سپریم کورٹ کا سابق مشیر ہوابازی شجاعت عظیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم
سپریم کورٹ میں پی آئی اے نجکاری کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق مشیر ہوابازی شجاعت عظیم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل)میں ڈالنے کا حکم دے دیااور ریمارکس دئیے کہ ٹیکس کے پیسے کوپی آئی اے والے کھاتے جا رہے ہیں، ادارے کونقصان پہنچانے کے ذمہ دار کو نہیں چھوڑیں گے۔منگل کو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے پی آئی اے نجکاری کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پی آئی اے کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹرز تشریف لائے ہیں؟ سماعت کے دوران سابق مشیر ہوا بازی شجاعت عظیم اور سردارمہتاب احمد خان عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے سردار مہتاب احمد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے میں نقصان آپ کے دور میں نہیں ہوا، آپ بیٹھ کر دیکھیں کہ پی آئی اے میں ہوا کیا ہے۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پی آئی اے کے 2008سے 2017تک کے مالی حالات پر پروجیکٹر پر بریفنگ لی۔ماہر اقتصادیات فرخ سلیم نے فاضل عدالت کے سامنے پی آئی اے کا 10 سالہ مالی جائزہ پیش کیا،پروجیکٹر پر سپریم کورٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 2001 میں 28 ارب، 2008 میں 36 ارب، 2016 اور 2017 میں 44 اور 45 ارب روپے کا نقصان ہوا، 2008میں پی آئی اے کا خسارہ 36ارب روپے تھا،پی آئی اے کی 2008میں ریونیو آپریشنل کاسٹ 129ارب روپے تھی،سال 2016میں ریونیوآپریشنل کاسٹ 134ارب روپے تھی،سال 2008میں پی آئی اے کا ریونیو 89ارب روپے تھا،سال 2016میں پی آئی اے کا ریونیو 89 ارب روپے تھا،سال 2008میں پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 73 ارب روپے تھا ،سال 2008سے ا بتک پی آئی اے کامجموعی خسارہ 360ارب روپے ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 2008میں پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 73 ارب روپے تھا ،سال 2008سے خسارہ بڑھ کر 360ارب ہو گیا،یہ خسارہ آخری دوحکومتوں کے دور میں ہوا۔فرخ سلیم نے کہا کہ 88فیصد خسارہ گزشتہ دس سال کا ہے، 2013سے 2017کے درمیان 197ارب کا نقصان ہوا۔چیف جسٹس نے کہا کہ 2013میں ہوا بازی کا نیا ادارہ بنایا گیا،شجاعت عظیم کو ہوا بازی کا مشیر مقرر کیا گیا تھا۔فرخ سلیم نے کہا کہ 2008سے 2017 تک پی آئی اے کے 412ارب کے واجبات ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پی آئی اے کے لیے پیسہ کہاں سے آتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی اے کو پیسہ ٹیکس کا جاتا ہے،ٹیکس کے پیسے کوپی آئی اے والے کھاتے جا رہے ہیں۔فرخ سلیم نے کہا کہ اس پر نقصان کی وجہ سیاسی اثررسوخ پیکج اور ایسوسی ایشن پالیسی ہے،گزشتہ 10سال میں پی آئی اے میں تقرریاں سیاسی بنیادوں پرہوئیں، پی آئی اے میں سیاسی جماعتوں سے وابستگی والی7یونینز ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 2013سے 2016تک جہاز لیز پر لیے گئے،جہاز لیز پر لینے کے وقت ایم ڈی کون تھے؟فرخ سلیم نے جواب دیا کہ 2016میں لیز پر لیے گئے جہازوں کے لیے 9ارب ادا کیے گئے،2008سے 2017تک 45جہازوں کو لیز پر لیا گیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایسے جہازوں کے لیے اسپئیر پارٹس کی خریداری پر پیسہ خرچ ہوا،ایسے جہازوں کے اسپئیر پارٹس بھی خریدے گئے جو ہمارے پاس نہیں۔فرخ سلیم نے کہا کہ 1990سے پی آئی اے کے پاس اسپئر پارٹس پڑے ہیں،جوآج تک استعمال نہیں ہوئے،لیز کے جہاز گراونڈ ہونے سے 6.67 ارب روپے کا نقصان ہوا۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جہازچلے گا تو نفع آئے گا،لیز پر جہاز لےکر گراونڈ کر دئیے گئے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جہاز کو گراونڈ کرنے سے 36ارب کا نقصان ہوا۔فرخ سلیم نے کہا کہ 2013میں پی آئی اے کے دو لاکھ 87ہزار ٹکٹس بانٹے گئے، ٹکٹوں کی تقسیم سے 5ارب روپے کا نقصان ہوا۔چیف جسٹس نے کہاکہ کس کو یہ پی آئی اے کے ٹکٹس مفت دیئے گئے؟ مفت ٹکٹس تقسیم کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے،پراسیکوٹر نیب آپ یہاں موجود ہیں آپ بھی دیکھیں۔فرخ سلیم نے کہا کہ پی آئی اے کے کارگو نقصانات کا جائزہ لینا ہوگا،2016میں پی آئی اے کے میڈیکل اخراجات 3ارب روپے کے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملازمین کی انشورنس کروانے سے ایک ارب کے اخراجات ہوئے۔فرخ سلیم نے کہا کہ 2000میں پی آئی اے شیئرز کا ریٹ 53فیصد تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کی ایئرلائینزکے شیئرز کی قیمت کم کیسے ہوئی؟کیا ہمارے پاس جہاز کم تھے یا روٹ فروخت کئے گئے؟فرخ سلیم نے جواب دیا کہ 2017میں شیئرز کی ویلیو 22 فیصد ہوگئی،مشرق وسطی کی پروازیں ہفتے میں 546 ہو گئیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سابق ایم ڈیز ان سوالات کا جواب مجموعی طور پر دیں گے یا الگ الگ؟ ساتھ ہی چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ معاملہ نیب کو بھجوا دوں؟سماعت کے دوران عدالت عظمی نے سابق مشیر ہوابازی شجاعت عظیم کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت میں جیب سے ہاتھ نکال کر کھڑے ہوں، آپ ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔چیف جسٹس نے شجاعت عظیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب نقصان آپ کے دور میں ہوا۔جس پر شجاعت عظیم نے جواب دیا کہ میں دو سال مشیر ہوا بازی رہا، میرا تعلق پی آئی اے سے نہیں تھا، جب آیا تو اسلام آباد ایئرپورٹ کی حالت بری تھی، مجھے ایڈوائزز بنایا گیا تھا لیکن دوہری شہریت پر ایک ماہ میں ہی مجھے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔جس پر چیف جسٹس نے شجاعت عظیم سے کہا کہ آپ تحریری طور پر جواب دیں،کھانے پینے کے ٹھیکے کس کو دیے گئے؟آپ اتنے پرتجسس کیوں ہیں کہ آپ کو سنا جائے؟۔اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے شجاعت عظیم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور ان کے خلاف تحقیقات کرکے ریفرنس فائل کرنے کا حکم دے دیااور کہا کہ پی آئی اے کا بیڑا غرق کردیا گیا ۔ چیف جسٹس نے حکم دیا ہے کہ پی آئی اے کے سابق ایم ڈیز اپنے جوابات داخل کریں اور جوابات سوچ سمجھ کر داخل کیے جائیں۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت 2 ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔
#/S