ثابت کرنا ہوگا بیرون ملک بھیجا گیا پیسہ جہانگیر ترین کا اثاثہ ہے:چیف جسٹس ثاقب نثار
سپریم کورٹ میں جہانگیرترین نااہلی کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ درخواستگزار حنیف عباسی کے وکیل عاضد نفیس نے دلائل دیئے کہ جہانگیر ترین کی جانب سے لیز زمین سے متعلق جودستاویزات پیش ہوئیں وہ جعلی ہیں۔ محکمہ مال میں لیز زمین کی انٹری موجود ہی نہیں۔ جہانگیر ترین اتنی بڑی رقم دے رہے تھے تو محکمہ مال میں انٹری بھی کرا لیتے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ محکمہ مال میں لیز زمین کی انٹری کرانا مالکان کا کام تھا۔ عاضد نفیس نے کہا کہ چیف جسٹس دیکھ رہے ہیں جو دستاویزات ریکارڈ پر ہیں اس سے بے ایمانی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ جہانگیر ترین نے تحریری جواب میں کہا کہ آف شور کمپنی کے بینفیشری بچے ہیں۔ وہ ٹرسٹ اورکمپنی کے بینیفشری نہیں۔ جہانگیر ترین کو ٹرسٹ کی رقم اپنے سمیت کسی کو دینے کا اختیار بھی ہے۔ ٹرسٹ کے ذریعے سرمایہ کاری بھی کی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پانامہ کیس میں منی ٹریل کا سوال تھا۔ عدالت کے پاس سوال یہ ہے کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ پانامہ کیس میں بھی یہی سوال تھا کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ حنیف عباسی کے وکیل عاضد نفیس کا کہنا تھا کہ ملکیت کو چھپانے کے لیے ٹرسٹ سامنے لایا گیا۔ اگرپراپرٹی درست ہے توٹرسٹ کو چھپانے کی کیا ضرورت ہے۔ جہانگیر ترین نے جو حرب استعمال کیے وہ ایماندار شخص استعمال کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ثابت کرنا ہے کہ بیرون ملک گیا پیسہ جہانگیرترین کا اثاثہ ہے۔ پانامہ کیس میں قابل وصول تنخواہ ظاہرنہ کرنے پرنااہلی ہوئی۔ عدالت نے پہلے قابل وصول تنخواہ کواثاثہ ثابت کیا۔ جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی معمولی نہیں ہے۔ سماعت میں جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ زمین کے تمام اخراجات کا حساب دینے کی کوشش کی۔ کھاد،آبیانے اور سپرے کا حساب دیا گیا۔ عدالت نے دلائل سن کر سماعت کل تک ملتوی کردی۔