جوڈیشل کمیشن کی سماعت کھلی عدالت میں کرنے کا فیصلہ
عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس سپریم کورٹ بلڈنگ میں ہوا،جس کی صدارت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک نے کی، اجلاس میں کمیشن کے دیگر دو ممبران جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل بھی شریک تھے- اجلاس میں چیف جسٹس کے سیکرٹری حامد خان کو کمیشن کا سیکرٹری مقرر کیا گیا جبکہ تمام سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے ثبوت سیکرٹری کے پاس پندرہ اپریل تک جمع کروا سکتے ہیں، کوئی بھی وکیل یا کونسل بغیر پارٹی سرٹیفکیٹ کے کسی جانب سے پیش نہیں ہو سکے گا،جوڈیشل کمیشن نے دوہزار تیرہ کے انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں سے تجاویز بھی طلب کی ہیں، اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ آئندہ اجلاس کی کارروائی سولہ اپریل کو کورٹ نمبر ایک میں ہو گی اور کارروائی کو اوپن رکھا جائے گا- دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے قانونی اور آئینی ماہرین کی رائے دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کی شفافیت پر انگلیاں اٹھانا شروع ہو گئیں، جیتنے والے امیدوارں نے الیکشن کو شفاف جبکہ ہارنے والوں نے اس الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا، دھاندلی پر سب سے زیادہ شور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کیا گیا اور بات دھرنوں تک جا پہنچی۔ تحریک انصاف نے دھاندلی کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا جو کہ اب پورا ہو چکا ہے،کمیشن کی باقائدہ کارروائی بھی شروع کر دی ہے، آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ دھاندلی کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیئے تا کہ ملک میں اصل جمہوریت بحال کی جاسکے۔ ایم کیو ایم نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کو آئین کے آرٹیکل دو سو پچیس کے متصادم قرار دیا تھا جبکہ جبکہ سینئر قانون دان احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن آئین کے آرٹیکل دو سو پچیس سے متصادم نہیں بلکہ یہ آئین کے آرٹیکل ایک سو نوے کے تحت کام کرے گا، جبکہ ہر ادارہ اس کمیشن کا حکم ماننے کا پابند ہو گا۔ جوڈیشل کمیشن پینتالیس دنوں میں اپنی سفارشات دیگا کئی آئینی ماہرین کمیشن کی رپورٹ کو موجودہ حکومت کے لیے خطرہ تصور نہیں کرتے، بلکہ ان کا کہنا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ آئندہ الیکشن میں الیکشن کمیشن کے لیے دھاندلی کو روکنے میں مدد گار ثابت ہوں گی۔