وزیر اعظم عمران خان اور اس کی حکومت کی اکثریت جعلی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن
جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور اس کی حکومت کی اکثریت جعلی ہے ۔ یہ نصب کیا گیا وزیر اعظم، ملک میں حکومت عمران خان کی نہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ پس پشت جو قوتیں ہیں وہ اسے کتنا کھینچتی ہیں ۔ میاں نواز شریف کی مزاج پرسی کیلئے آیا تھا ، سیاسی باتیں بھی ہوئیں ، اب ن لیگ اپنا آئندہ کا لائحہ عمل جماعت کے اندر باہمی مشاورت کے بعد طے کرے گی۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے درمیان ملاقات میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ ایک دو روز میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کروں گا۔نیب ایک انتقامی ادارہ ہے اور اسے برے طریقہ سے استعمال کیا جا رہا ہے، نیب سے احتساب اور انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی ، نیب کے حوالہ سے ہمیں کچھ سخت فیصلے لینے چاہئیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد و سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی مزاج پرسی کے بعد جاتی امراء میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عمران خان، ہماری نہیں اپنی حکومت کی فکر کریں کہ وہ کب جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایشوز کے حوالہ سے ایم ایم اے کی تمام جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہے ۔انہوں نے نواز شریف سے جیل میں بھی ملاقات کا ارادہ کیا تھا لیکن موقع نہ مل سکا۔ اب جبکہ ان کی ضمانت پر رہائی ہوئی ہے ان کی تیماری داری کے لئے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ چند دن پہلے میرا ان سے فون پر رابطہ ہوا تھا اور آج کے دن لاہور میں ملاقات طے ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر چہ ایجنڈہ صرف مزاج پرسی تک محدود تھا تا ہم جب سیاسی لوگ مل بیٹھتے ہیں تو دیگر ایشوز بھی زیر بحث آتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ملک میں بدترین مہنگائی ہے اور عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے ۔ جس طرح پاکستانی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے اس پر دونوں جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ساری باتیں اسی کے گرد گھوم رہی تھیں کہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم اس صورتحال پر قابو پا سکیں اور ملک کے مستقبل کو ہم محفوظ کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جب الیکشن ہوئے تو اس کے فوراً بعد تمام اپوزیشن ایک پیج پر آ گئی تھی کہ یہ الیکشن دھاندلی کے الیکشن ہیں ، جو حکومت ہے اس کی اکثریت جعلی ہے ، جو ہمارا وزیر اعظم بنا بیٹھا ہے وہ بھی ایک جعلی اور خلائی قسم کا وزیر اعظم ہے جو نصب کردہ ہے، ایسے لوگ جو پاکستان کے نظریے کو نہیں جانتے ، پاکستان کے حالات سے واقفیت نہیں رکھتے ، معیشت کے حوالہ سے الف، ب سے بھی واقف نہ ہوں اور ملک ان کے حوالہ کر دیا جائے تو پھر اندازہ لگایا جا سکتا ہے ملک کس طرف جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قدر مشترک تمام سیاسی جماعتوں کے اندر پائی جا رہی ہے۔میں آج یا کل آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کروں گا اور ان سے بھی انہیں امور پر بات چیت ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ تمام متفقہ نکات پر تمام سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی ہونی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی (ف) ملک میں 10ملین مارچ مکمل کر چکی ہے اور اس میں عوام کا سمندر شریک ہوتا تھا ۔ میں میڈیا سے بھی یہ بات کہنا چاہوں گا کہ اتنے بڑے ایونٹس کو جن میں تا حدنظر انسان موجود ہوں اور اس کو آپ نظر انداز کرتے چلے جائیں تو پھر میڈیا بھی اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ لے کہ کیا اس کی جگہ سوشل میڈیا نہیں لے گا، کیا آپ پر اعتماد ختم نہیں ہو گا، کیا آپ کے حوالہ سے لوگ مایوس نہیں ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ان مسائل کے حوالہ سے جو تحریک چل رہی ہے ہمیں اس کو قومی تحریک کے طور پر دیکھنا چاہئے اور اس کو وہی مقام دینا چاہئے جو قومی سیاست میں اس کا ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ کب تک تمام جماعتیں حکومت کے خلاف ایک فورم پر آ جائیں گی اس حوالہ سے فیصلے دیگر جماعتوں نے خود کرنے ہیں ۔ انہوں ن ے کہا کہ حکومت کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کے حوالہ سے ہماری پارٹی اور (ن)لیگ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے تاہم یہ فیصلہ (ن) لیگ نے خود کرنا ہے کہ وہ کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جب تک تمام اپوزیشن جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی نہیں ہوتی تو کچھ کمی اور خلاء ضرور کسی نہ کسی سطح پرموجود رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک نیب کا تعلق ہے نیب ایک انتقامی ادارہ ہے اور اسے برے طریقہ سے استعمال کیا جا رہا ہے، نیب سے احتساب کی توقع اور اس حوالہ سے کسی انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی ، میں سمجھتا ہوں نیب کے حوالہ سے ہمیں کچھ سخت فیصلے لینے چاہئیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر میڈیا سمجھتا ہے عمران خان کی حکومت ہے تو وہ نہیں ہے ، اس کے پیچھے کی جو قوتیں ہیں وہ اپنی طاقت اور بل بوتے اور ادارے کی طاقت کو استعمال کر کے کب تک ان کو کھینچتی ہیں بس اسی پر انحصار ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ملاقا ت کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ایک سوال پر کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے ہم نے مولانا فضل الرحمن کو پارلیمنٹ سے باہر کر دیا ہے، اس پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ گھسا پٹا سوال ہے اب وہ اپنے خاتمہ کا سوچیں ، ہمارے خاتمہ کی فکر نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ ایشوز کے حوالہ سے ایم ایم اے کی تمام جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہے اور کوئی اختلاف رائے نہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میاں محمد نواز شریف کا موڈ بہت اچھا تھا او میں بڑے اطمینان سے وہاں سے اٹھا ہو ں اور ظاہر ہے اطمینان تب ہی ہو گا جب ان کا موڈ اچھا ہو گا۔ اس سے قبل جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جاتی امرا جا کر مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کی عیادت کی اور ان کی خیریت دریافت کی۔ دونوں رہنماؤں کی ملاقات تقریبا 2 گھنٹے تک جاری رہی ۔مولانا فضل الرحمن سابق وزیر اعظم کی خیریت بھی دریافت کی جس پر سابق وز یر ا عظم نے مولانا فضل الرحمن کو اپنے علاج کے بارے میں بتایا ، جب کہ مولانا فضل الرحمن نے سابق صدر آصف علی زرداری سے ہونے والی ملاقات کے بارے بھی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔مولانا فضل الرحمن اپوزیشن جماعتوں کو اکھٹا کرنے اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر بھی مشاورت کی۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ اپوزیشن جماعتیں جلد ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر قائل ہو جائیں گی۔