مصرمیں کھدائیوں کے دوران زیرزمین شہر دریافت
مصر میں کھدائیوں کے دوران ماہرین آثار قدیمہ نے ایک قدیم شہر کے کھنڈرات کا پتا چلا ہے جو 3 ہزار سال قبل آباد کیا گیا تھا۔ مصر کی آثار قدیمہ مشن کے سربراہ اور سابق وزیر برائے آثار قدیمہ ڈاکٹر زاھی حواس نے بتایا کہ تاریخی ماخذ میں اس شہر کا نام'صعود آتون' ملتا ہے جس کی تاریخ امنتحب سوم بادشاہ کے زمانے سے ہے۔ یہ شہر توت عنخ آمون نامی بادشاہ کے زمانے بھی قبل آباد تھا۔ ڈاکٹر زاھی حواس نے بتایا کہ جہاں قدیم شہر کے کھنڈرات ملے ہیں وہاں پر کچھ عرصہ قبل بادشاہ توت عنخ آمون کے لیے مختص ایک عبادت گاہ'معبد الجنائزی' کی باقیات کی کھدائیوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ یہاں پر کھدائیوں سے 'حوب محب' اور 'آئی' نامی دو عبادت گاہیں اب تک سامنے آچکی ہیں۔ ڈاکٹر حواس کا کہنا ہے کہ مصر میں سامنے آنے والا یہ اب تک کا یہ سب سے بڑا قدیم شہر ہے جس کی بنیاد مصر کے ایک قدیم اور عظیم بادشاہ امنحتب سوم نے رکھی۔ یہ امنحتب خاندان کےسلسلہ نسب کے 18 ویں خاندان کا نواں بادشاہ تھا جس نے 1391 سے 1353 قبل مسیح میں مصر پر حکومت کی۔ شہر کی تعمیر میں اس کے بیٹے اور ولی عہد امنحتب چہارم اخناتوم نے بھی حصہ لیا جو اس کے 8 سال بعد تخت نشین ہوا۔ ڈاکٹر حواس نے بتایا کہ مصر کے الاقصر کے مغربی کنارے پر یہ مصری شہنشاہیت کے دور کی سب سے بڑی صنعتی اور انتظامی کالونی تھی۔ یہاں پر کھدائیوں کے دوران بعض ایسے گھروں کا بھی پتا چلاہے جن کی دیواریں تین تین میٹر اونچی ہیں۔ شہر کے اندر کشادہ گلیوں کا بھی پتا چلتا ہے۔ اب تک اس شہر کا مغربی حصہ دریافت ہوا۔ یہاں پر کھدائیوں کا آغاز ستمبر2020ء میں ہوا۔ چند ہفتوں کی کھدائیوں کے نتیجے میں یہاں پر ہرطرف مٹی کی اینٹیں ظاہر ہونا شروع ہوگئیں اور یہاں پر کھدائیوں کے دوران ملنے والی باقیات نے تحقیقی مشن کو بھی حیرت زدہ کردیا۔ ماہرین کو یہ یقین نہیں تھا کہ وہ ایک ایسے شہر تک پہنچ گئے ہیں جو ہزاروں سال گذرنے کے بعد زیرزمین ہونے کے باوجود آج بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔ اس کی دیواریں کافی حد تک مکمل ہیں اور ان کے گھروں کے کمرے روز مرہ کے استعمال کی اشیا سے بھرے پڑے ہیں۔ یہاں سے ملنے والی بعض نوادرات ایسے لگتی ہیں جیسے آج کل کسی نے انہیں وہاں رکھا ہو۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں مصر کی پروفیسر ڈاکٹر بیٹسی برائن نے کہا کہ اس گمشدہ شہر کی دریافت توت عنخ آمون قبرستان کی دریافت کے بعد ایک بڑی دریافت ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اس شہر کی دریافت سے ہمیں سلطنت کے مصر کے نہ صرف قدیم زمانے تک لے گئی ہیں بلکہ ان باقیات سے قدیم مصریوں کی زندگی کی ایک نادر جھلک ملتی ہے۔ اس سے تاریخ کے سب سے بڑے اسرار پر روشنی ڈالنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ ہمیں پتا چلتا ہے کہ اختناتون اور نفرتیتی نے شہر کوآباد کرنے کے لیے کیسے کیسے فن تعمیر کا استعمال کیا تھا۔ یہ جگہ ھابو شہر میں فرعونی بادشاہ رمسیس ثالث کے چرچ اور امنحتب سووم کے ممنون چرچ کے درمیان واقع ہے۔ مصری ماہرین آثار قدیمہ نے اس علاقے آغاز میں فراعنہ کے بادشاہ 'توت عنخ آمون الجنائزہ' کے معبد کی تلاش کے لیے کھدائیوں سے کیا۔ توت عنخ آمون جو بادشاہ 'آئی' کا جانشین تھا نے تعمیر کیا۔ اس نے یہاں ایک معبد تعمیر کیا۔ اس کے بعد اس کے جنوب میں رمسیس ثالث نے ھابو شہر میں ایک معبد تعمیر کیا تھا۔ مشن کا پہلا مقصد اس شہر کی تاریخ کا تعین کرنا تھا کیوں کہ شراب برتنوں سے'ہیرو غلیفیہ' کے الفاظ ملے جس نے وہاں پر مزید کھدائیوں کی راہ موار کی۔ یہاں تک کہ امنحتب سوم کے تین محلات، ایک انتظامی مرکز اور فراعنہ کے ایک صنعتی مرکز کا پتا چلا۔ یہاں پر کھدائیوں کے دوران ملنے والی اشیا میں عام استعمال کے برتن، شراب کے برتن، شراب تیار کرنے والا کارخانہ، رنگین برتن، مٹی کی اینٹیں جن پر خرطوش مہر لگی ہوئی ہے ملے۔ یہ مہر بادشاہ امنحتب سوم کی تھی جو کھدائیوں کے صرف سات ماہ کے اندر اندر مل گئی۔