فوج کا سیاست میں کسی قسم کا عمل دخل نہیں ہونا چاہئے،احسن اقبا ل
پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سیکرٹری جنرل اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاک فوج کے ترجمان کا جو بیان ہے یہی پاکستان کی ہر جمہوری جماعت کا مئوقف ہے کہ فوج کا سیاست میں کسی قسم کا عمل دخل نہیں ہونا چاہئے ، اگر اس بیان پر عمل کیا جائے گا تو یہ پاکستان کے لئے اور فوج کے لئے اور سب کے لئے بہت بہتر ہے۔ اگر اُن کا کسی سے کوئی بیک ڈور رابطہ نہیں ہے تو پھر ہمارا بھی کسی سے بیک ڈور رابطہ نہیں ہے۔ان خیالات کااظہار احسن اقبال نے پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محمد حمزہ شہباز شریف کے خلاف رمضان شوگر ملز کیس کی احتساب عدالت میں سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ احسن اقبال نے اعلان کیا کہ (ن)لیگ سینیٹ انتخابات کو اوپن بیلٹ کے ذریعے کر انے کے حوالہ سے جاری صدارتی آرڈیننس کے کیس میں پارٹی بن رہی ہے اور ہم سپریم کورٹ سے عرض کریں گے کہ یہ معاملہ آئین سے متعلق ہے اور آئین میں ترمیم کا اختیارصرف اور صرف پارلیمنٹ کو ہے، اگر اس حوالہ سے کوئی تنازعہ کھڑا ہوا تو وہ پاکستان میں آئینی بحران پیدا کرے گا لہذا ہمیں کسی نئے بحران سے بچنا چاہئے اور ہر ادارہ اپنی حدود کے اندرکام کرے اور حکومت جو قومی اداروں کو تنازعوں میں جھونک کر متنازعہ کرنا چاہتی ہے اس سے سب ا داروں کو بچنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف نے قوم سے جو بھی وعدے کئے تھے وہ ہم نے پورے کئے۔ عمران نیازی جس شخص کا نام ہے اس نے وعدہ کیا تھا کہ میں ایک کروڑ نوکریاں دوں گا، اس نے 20لاکھ برسرروزگار لوگوں کو بیروزگارکردیا، نئی نوکری کیا دینی تھی جو لوگ روزگار پر لگے ہوئے تھے انہیں بھی بیروزگارکردیا، اس نے وعدہ کیا تھا کہ میں 50لاکھ گھر بنا کر دوں گا، تیسرا سال جارہا ہے کہیں پانچ گھر بھی نہیں بنے، اس نے وعدہ کیا تھا کہ میں بجلی اور گیس سستی کروں گا، آج ہر ماہ بجلی اور گیس کا بل جھٹکے کی صورت میں لوگوں کو لگتا ہے، اس نے وعدہ کیا تھا کہ میں آٹا اور چینی سستی کروں گا، اس نے پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی پیداکرکے دکھادی۔ ایک طرف وہ جھوٹا لیڈر ہے جس نے جو وعدہ کیااس پر یوٹرن لیا اور اس کے برخلاف عمل کیا اور دوسری طرف وہ سچی قیادت ہے جس نے جو پاکستان سے وعدہ کیا وہ پورا کرکے دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ عمران نیازی نے گذشتہ روز علماء اور مشائخ کے سامنے بیٹھ کر جو بہتا ن بازی کی ہے اور جو جھوٹے الزامات لگائے ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ وہ نہایت ہی اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے، کم از کم علماء دین کے سامنے بیٹھ کر تو سچی بات کرو اور یہی جھوٹ اور بہتان کی سیاست ہے جس کی نحوست کی وجہ سے اس کی حکومت نہیں چل رہی ہے، اناڑی ہے، نالائق ہے لیکن ساتھ ساتھ جھوٹ اور بہتان کی نحوست ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا ستیاناس ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سینیٹ الیکشن کے حوالہ سے جوآرڈیننس جاری کیا ہے اس پر یہ بات ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ یہ حکومت جو لوگوں کو دھوکہ دے رہی ہے کہ ہم سینیٹ میں شفافیت لانا چاہتے ہیں ، اگر یہ سینیٹ کے الیکشن کو شفاف اور صاف کرنا چاہتے تو پھر جب چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد ہوا تھا تو عمران نیازی صاحب نے اپنی نگرانی میں ہارس ٹریڈنگ کیوں کی؟اس وقت اپوزیشن ارکان کا خریدنا حلال تھا اور آج حرام ہو گیا ، عمران نیازی کے پاس دو جھنڈے ہیں ایک اصول کا اور ایک حصول کا، جب اس کے مفادات کا حصول کھلتا ہے تو اصول کا جھنڈا بغل میں چلا جاتا ہے اور جب نظر آتا ہے کہ مفادات پورے نہیں ہورہے تو پھر بغل سے اصول کا جھنڈا کھڑا کر کے خود کو بڑے ریفارمر اور بڑے اصول پسند بنا لیتے ہیں۔ دراصل عمران نیازی کو یہ خطرہ ہے کہ اس کے پیارے جن کو وہ سینیٹ میں لانا چاہتا ہے اس کی اپنی پارٹی انہیں ووٹ نہیں دینا چاہتی، اس کی اپنی جماعت میں بغاوت ہے جس کو کچلنے کے لئے وہ سینیٹ میں اوپن بیلٹ کررہا ہے، یہ جو پورا پیکج ہے اس کا نہ تعلق شفافیت سے ہے ، نہ اس کا تعلق اصلاحات سے ہے، اس کا تعلق صرف فرینڈز آف عمران خان کو این آر اودینے سے ہے، کہ فرینڈز آف عمران خان کو زبردستی کیسے سینیٹ میں لایا جائے، ایک فرینڈ آف عمران خان نااہل ہونے لگا ہے اس کی نااہلی کیسے بچائی جائے، ایک فرینڈ آف عمران خان جو بیرونی شہریت رکھتا ہے اسے سینیٹ میں کیسے لے کر آیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین فرینڈز آف عمران خان کی خاطر تبدیل نہیں ہوسکتا اور اب یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو اس سیاسی تنازعہ میں فریق بنانے کی کوشش کررہے ہیں، میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت اور اس کے معزز جج صاحبان حکومت کے آرڈیننس جاری کرنے کے بعد اس ریفرنس کو واپس کریں گے کیونکہ حکومت نے سپریم کورٹ پر ریفرنس جاری کرکے دبائو ڈالا ہے، ان کو ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو ڈکٹیشن دینے کا مطلب یہ ہے حکومت سمجھتی ہے کہ سپریم کورٹ، حکومت کی کوئی وزارت ہے جسے جو ہدایت دی جائے گی وہ اس کے مطابق عمل کرے گی، سپریم کورٹ ،پاکستان کے آئین کی پابند ہے ، حکومت نے قومی اسمبلی میں سینیٹ اوپن الیکشن کے لئے آئینی ترمیمی بل جمع کروایا اور وزیر خارجہ فرماتے ہیں کہ دو تہائی اکثریت ہمیں نہیں ملی لہذا ہم نے آرڈیننس جاری کردیا، اس سے زیادہ جہالت کی بات نہیں ہو سکتی کہ آپ کو آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت نہ ملے ، آپ کہیں کہ ہم اس کے لئے آرڈیننس جاری کررہے ہیں، کل آپ18ویں ترمیم ختم کرنے کا بھی آرڈیننس جاری کردیں گے، آپ58-2Bکو بھی واپس لانے کا آرڈیننس جاری کردیں گے ، یہ پاکستان کو آئینی انارکی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ قومی اسمبلی کے انتخابات تو متنازعہ تھے، اب یہ سینیٹ کے انتخابات کو بھی متنازعہ کرناچاہتے ہیں اور پاکستان میں آئینی انتشار پیداکرنا چاہتے ہیں ، اس کے لئے ہم سپریم کورٹ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن انتخابی اصلاحات پر یقین رکھتی ہے، ہمارا اصل مسئلہ ملک کے عام انتخابات ہیں جن سے اس ملک کے اندر سلیکٹڈ حکومت مسلط کی جاتی ہے ،2018کے انتخابات میں جو دھاندلی کی گئی ہے اس کی روشنی میں ہم جامع انتخابی چاہتے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ حکومت ٹکڑوں میں اصلاحات کرے، جو چیز اس کو سوٹ کرے وہ کرلے اور جو چیز نظام کے لئے ہو اس کو نظر انداز کردے،اگرسینیٹ کے لئے اوپن بیلٹ لانا ہے تو اسے انتخابی اصلاحات کے جامع پیکج کا حصہ ہونا چاہئے تاکہ جو پورے نظام کی اصلاح ہے اس بارے میں قانون سازی کی جائے سکے،