پاکستان کو قرض نہیں ، عوام کیلئے روزگار چاہیے۔چیف جسٹس آف پاکستان

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پاکستان کو قرض نہیں ، عوام کیلئے روزگار چاہیے۔ پیرکو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے اولڈ ریلوے گالف کلب عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت کی۔سیکرٹری ریلوے مظفررانجھا نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے حکم امتناع کی وجہ سے ریلوے کی زمین لیز پر نہیں دے سکتے، زمین لیز پر دیکر ریونیو حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حکومت پنشنز کیلئے ریلوے کو 40 ارب روپے دیتی ہے، اس کے علاوہ پی آئی اے اور سٹیل ملز کو بھی اربوں روپے دے رہی ہے، کیا سب کچھ بیچ کر ملک چلانا ہے؟۔جسٹس جمال مندوخیل نے دوران سماعت کہا کہ کوئٹہ میں ریلوے کے رہائشی کوارٹر فروخت ہوچکے ہیں۔ سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ جو زمین استعمال نہیں ہو رہی اسے کمرشل کرنا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے وفاقی حکومت سے بطور کمرشل ادارہ کام کرنے کی اجازت کیوں نہیں لیتا؟۔ ریلوے اس وقت مالی بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ریلوے میں ملازمین ضرورت سے زیادہ ہیں۔ پنشنز کا بھی بوجھ ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ ریلوے سالانہ کتنا منافع کما رہا ہے؟۔ جس پر سیکرٹری ریلوے مظفر رانجھا نے بتایا کہ پچھلے سال ریلوے کا سالانہ منافع کا ٹارگٹ 58 ارب روپے تھا۔ ریلویز نے 2022 میں 62 ارب روپے کمائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریل گاڑی کے انجن سے ایک موٹر خراب ہو جائے تو دوسری ریل گاڑی کا نکال کر لگا لیتے ہیں۔ کیا ریلوے کا نظام ایسے چلا رہے ہیں؟۔ سیکرٹری ریلوے نے کہا پاکستان ریلوے پل صراط پر چل رہی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریلوے کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں ریلوے کا شعبہ حکومت کو ریونیو دیتا ہے، ریلوے حکام ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں جامع پلان پیش کریں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں اربوں روپے قرض لے لیا جاتا ہے، پاکستان میں قرضہ لینا ایک حساس معاملہ بن چکا ہے، اربوں روپے قرض لینے سے پوری قوم مقروض ہوچکی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اربوں ڈالر قرض لے کر منصوبے لگانے کی بات ہر کوئی کرتا ہے، ملک میں اربوں ڈالر کا انفراسٹرکچر پہلے سے موجود ہے اس پر کیا ڈلیور کیا ؟ پاکستان کو قرض نہیں چاہیے، عوام کیلئے روزگار چاہیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایم ایل ون 9.8 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے جس کی ایکنک منظوری دے چکا، ایم ایل ون پروجیکٹ اربوں ڈالرز لے کر بھی مکمل نہیں ہوا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ چھٹیوں کے دوران سندھ میں ریل کا سفر کیا ہے، سندھ میں ریلوے لائنوں کے اطراف آج بھی سیلابی پانی کھڑا ہے، بارشیں گرمیوں میں ہوئی تھیں پانی اب تک نہیں نکالا جا سکا، ریلوے افسران نے بتایا کہ بلوچستان میں صورتحال سندھ سے بھی ابتر ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ بین الاقوامی جریدے دی اکانومسٹ نے پاکستان کی سڑکوں پر ضمیمہ چھاپا تھا، ضمیمے کا عنوان تھا وہ سڑکیں جو کہیں نہیں جاتیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اربوں ڈالروں کے منصوبے لگانے سے عدالت مرعوب نہیں ہوگی، ملک کو یہ پرتعیش آسائشیں نہیں پرفارمنس اور استعداد کار چاہیے، ریلوے کی زمینوں کے اطراف تجاوزات کی بھرمار ہے، ریلوے لائن سے 15 فٹ کے فاصلے پر لوگوں کے گھر ہیں، ریلوے اپنی اراضی کی حفاظت نہیں کرے گا تو لوگ اس پر بیٹھ جائیں گے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لوگ سارا دن ریلوے لائنوں پر بیٹھے رہتے ہیں کیونکہ کوئی رکاوٹ نہیں ، ریلوے لائنز کو موٹروے کی طرح محفوظ کیوں نہیں بنایا جاتا تاکہ کوئی ان پر نہ آسکے؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریلوے پاکستان کی لائف لائن ہے، ریل گاڑی جس بھی سپیڈ سے چلے منزل پر پہنچا ہی دیتی ہے۔سپریم کورٹ نے 2 ہفتے میں ریلوے کو منافع بخش بنانے سے متعلق جامع پلان عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی آئندہ سماعت 23 جنوری سے شروع ہونے والے ہفتے تک ملتوی کردی۔