20 اپریل کے حکمنامے کے بعد خصوصی بینچ کی تشکیل سے لے کرجے آئی ٹی کے ساٹھ دنوں کی کیاکاروائی رہی،
پاناما کیس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ نے بیس اپریل کو فیصلہ سناتے ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا۔۔ دو مئی کو سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کے تین رکنی بینچ عمل میں آیا۔۔ تین مئی کو سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے پہلی سماعت کی۔۔ پانچ مئی کو سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کی۔۔ آئھ مئی کو پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے کام شروع کر دی۔۔ بائیس مئی کو جے آئی ٹی نے اپنی پہلی رپورٹ سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ کو جمع کروائی۔۔ اٹھائیس مئی کو وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز وزیراعظم کے سامنے پیش ہوئے۔۔ حسین نواز کی تیس مئی کو دوسری پیشی ہوئی۔۔ تیس مئی کو نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کو بھی جے آئی ٹی طلب کیا گیا۔۔۔ یکم جون کو حسین نواز کو تیسری بار جے آئی ٹی نے طلب کیا۔۔ دو جون کو حسن نواز کی پہلی پیشی اور تین جون کو حسین نواز کی چوتھی پیشی ہوئی۔۔۔ سات جون کو جے آئی ٹی اپنی دوسری عملدرآمد رپورٹ سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ کو جمع کروائی۔۔ سات جون کو حسین نواز نے تصویر لیک معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروائی۔۔ اسی روز جے آئی ٹی نے بھی تحقیقات میں درپیش رکاوٹوں سے متعلق اعلیٰ عدلیہ کو تحریری آگاہ کیا۔۔ آٹھ جون کو حسن نواز دوسری بار جبکہ نو جون کو حسین نواز پانچویں بار جے آئی ٹی میں پیش ہوئے۔۔۔ پندرہ جون کو وزیراعظم نواز شریف جے آئی ٹی کے سانے پیش ہوئے۔۔ سترہ جون کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو طلب کیا گیا۔۔ تئیس جون کو سابق وزیر داخلہ رحمان ملک اور چوبیس جون کو وزیراعظم کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پیش ہوئے۔۔ دو جولائی کو وزیراعظم کے کزن طارق شفیع دوسری بار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔۔ تین جولائی کو حسن نواز کو تیسری بار بلایا گیا۔۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار تین جولائی کو جے آئی ٹی میں پیش ہوئے۔۔ چار جولائی کو حسین نواز کو چھٹی بار مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے طلب کیا۔۔ پانچ جولائی کو وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کی پیشی ہوئی۔۔ چیئرمین نیب قمرزمان چودھری کو پانچ جولائی کو طلب کیا گیا۔۔ جے آئی ٹی اب اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے گی۔۔۔