کرکٹ کے میدان میں گری ہوئی ٹیم کو اٹھانا اس کے وکٹ کیپر کی ذمہ داری ہے: سابق کپتان معین خان
لاہور(سپورٹس رپورٹر) پی سی بی کی جانب سے شروع کیا جانے والا آن لائن ویڈیو سیشنز کا سلسلہ اختتام پذیرم ہو گیا۔ آخری آن لائن سیشنز میں سابق کپتان معین خان نے وکٹ کیپرز کے کردار پر اہمیت دیتے ہوئے کہا کہ کرکٹ کے میدان میں گری ہوئی ٹیم کو اٹھانا اس کے وکٹ کیپر کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میچ کے دوران اگر باولرز کی پٹائی لگ رہی ہو تو بطور وکٹ کیپر آپ کو دیگر فیلڈرز کے ساتھ مزاق یا تفریح کرنی چاہیے تا کہ کھلاڑی دباو کا شکار نہ ہوں۔معین خان نے موجودہ وکٹ کیپرز کو اپنے باولرز سے ربط بڑھانے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ وہ وکٹ کے پیچھے کھڑے ہوکر وسیم اکرم اور شاہد آفریدی کے آنکھوں کے اشارے پڑھ لیا کرتے تھے۔ معین خان نے کہا کہ دونوں باولرز کے ساتھ مل کرانہوں نے کئی معروف بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔معین خان نے کہا کہ 1990 کی دہائی میں راشد لطیف جیسے باصلاحیت وکٹ کیپر سے مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا مگر انہوں نے الزام تراشی یا حیلے بہانے ڈھونڈنے کی بجائے خوداحتسابی پر اعتماد کیا اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی پاکستان کی جانب سے سب سےزیادہ ایک روزہ میچز کھیلنے والے وکٹ کیپرہیں۔ سابق کرکٹر نے کہا کہ وہ سخت محنت اور ذہنی مضبوطی کے لیے فٹبال اور اسکواش کھیلنے کے علاوہ جوگنگ کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سلیم یوسف اور این ہیلی سے بہت متاثر تھے اور انہی کی طرح اچھا وکٹ کیپر بیٹسمین بننے کی کوشش کرتے تھے۔معین خان کا 14 سالہ کیرئیر 1990 سے 2004 پرمحیط ہے۔ جس میں انہوں نے 69 ٹیسٹ میچوں میں 2741 رنز بنانے کے ساتھ ساتھ وکٹوں کے پیچھے 148شکار کیے۔ انہوں نے 219 ایک روزہ میچوں میں 3266 رنز بنائے اور وکٹوں کے پیچھے 287 شکار کیے۔