سپریم کورٹ نے این آر اوعملدرآمد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جو ایک بجے کے بعد سنایا جائے گا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت کی ۔ سماعت کے دوران نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو احتساب مقدمہ کے سزایافتہ عدنان خواجہ کے بطور ایم ڈی،او جی ڈی سی ایل تقررسے متعلق پس منظرسے آگاہ کیا اور کہاکہ معاملے کی تحقیقات نیب کے اختیار میں نہیں ۔ پراسیکیوٹرجنرل نے احمدریاض شیخ کے بطور ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے تقرر پر بھی جواب پیش کرتے ہوئے بتایاکہ احمدریاض شیخ کی جائیداد واپسی کیلئے ٹرائل کورٹ میں مقدمات زیرسماعت ہیںاوران کو سزا سے متعلق ڈی جی ایف آئی اے کا لیٹر مجرمانہ بدنیتی پر نہیں چھپایا گیا تھا۔ پراسکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ ملک قیوم کے خلاف بھی نیب آرڈیننس کے تحت کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ عدالت نے چیئرمین نیب سے ان کے مؤقف کا پوچھا تو انہوں نے پراسیکیوٹرجنرل کے مؤقف کی تائید کی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کوئی ادارہ این آر اوفیصلے پر عملدرآمد کے لیے ایکشن نہیں لے رہا جبکہ نیب نے بھی ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں۔نیب کی جانب سے معذوری کے اظہار کے بعد عدالت نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر ممکنہ کارروائی کے حوالے سے فیصلہ ایک بجے تک محفوظ کرلیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کسی کے خلاف انضباتی کارروائی کا فیصلہ نہیں دیں گے۔ اس موقع پراٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے مزید مہلت دینے کی درخواست کی جو کہ مسترد کردی گئی ۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ حکومت کو دی گئی مہلت ختم ہوچکی ہے ۔