طالبان سے امریکا کے مذاکرات افغان حکومت کی اجازت سے ہو رہے ہیں۔ عمر داودزئی
افغانستان کے صدر اشرف غنی کے خصوصی ایلچی عمر داودزئی نے کہا ہے کہ طالبان سے امریکا کے براہ راست مذاکرات افغان حکومت کی مرضی اور اجازت سے ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں نئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اور ایسے حالات میں پاکستان کے ساتھ ایشوز پر بات کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے برطانوی نشریاتی ادارے سے اسلام آباد میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ داودزئی ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں۔ عمر داودزئی کے مطابق امریکا نے طالبان سے براہِ راست مذاکرات شروع کرنے سے پہلے افغان حکومت سے اجازت لی تھی اور تمام ملاقاتوں میں نہ صرف افغان حکومت بلکہ افغان سیاستدانوں کو بھی اس حوالے سے مطلع کیا تھا۔بعض میڈیا رپورٹس میں یہ کہا گیا تھا کہ دوحہ میں امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد اور طالبان نمائندوں کی پہلی ملاقات میں افغان حکومت کو نہ پہلے اور نہ ہی بعد میں آگاہ کیا گیا تھا۔تاہم عمر داودزئی نے ان رپورٹس کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک سال پہلے امریکا نے نہ صرف افغان حکومت بلکہ افغان سیاستدانوں سے بھی مشورہ کیا تھا کہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کیے جائیں یا نہیں۔اس سوال کے جواب میں کہ طالبان افغان حکومت سے کیوں مذاکرات نہیں کرنا چاہتے، عمر داودزئی کا کہنا تھا کہ طالبان کی ایک عرصے سے یہ خواہش تھی کہ پہلے امریکا سے بات چیت کرلیں اور بعد میں افغان حکومت کے ساتھ بیٹھیں گے۔ ان کے مطابق ابھی تک جب امریکا اور طالبان کے درمیان کوئی حتمی بات نہیں ہوئی ہے، اس لیے طالبان افغان حکومت سے ملنے سے انکار کر رہے ہیں۔ تاہم افغان صدر کے خصوصی ایلچی نے اس بات پر زور دیا کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ بیٹھیں گے اور بات چیت بھی کریں گے۔