جے آئی رپورٹ کے مطابق نہ تو کبھی وزیر اعظم کے کزن طارق شفیع نے شیئرز فروخت کیے اور نہ ہی ان کے بارہ ملین درہم کا کوئی ریکارڈ ملا ہے

شریف خاندان کی جانب سے فراہم کی جانے والی دستاویزات کی تصدیق کیلئے جے آئی ٹی نے متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کو ایک خط لکھا، اس خط میں جے آئی ٹی نے پہلا سوال متحدہ عرب امارات میں طارق شفیع کے ڈیفالٹر ہونے کے بارے میں پوچھا ،، یو اے ای کی وزارت انصاف نے بتایا کہ ،، عدالت نے طارق شفیع کو ایمریٹس کمرشل اسٹیٹس کے مالک کے طور پر ڈیفالٹر قرار دیا،، اور انہیں بی سی سی آئی بینک کو ستانوے لاکھ ، تینتیس ہزار نو اسی درہم ادا کرنے کا پابند کیا،، جبکہ انہیں نو فیصد کے حساب سے سود کی ادائیگی کا بھی حکم دیا، جے آئی ٹی نے د وسرا سوال پوچھا کہ کیا طارق شفیع کے اہلی سٹیل ملز میں شیئرز تھے، ، کیا یہ حقیقت ہے یا جھوٹ اور کیا اس معاہدے کی دبئی کی کسی عدالت نے تصدیق کی ہے،، اس پر جے آئی ٹی کو بتایا گیا کہ ،، انیس سو اسی میں اہلی سٹیل ملز کے فروخت کیے جانے والے پچیس فیصد شیئرز کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا،، نہ ہی طارق شفیع کے نام پر بارہ ملین درہم کی کوئی ٹرانزیکشن ملی ہے،، طارق شفیع کی ان دستاویزات کی دبئی کی کسی عدالت کی جانب سے تصدیق بھی نہیں کی گئی. جے آئی ٹی نے تیسرا سوال پوچھا کہ کیا دو ہزار ایک ، دو میں اہلی سٹیل ملز کا سکریپ العزیزیہ سٹیل ملز لگانے کیلئے دبئی سے جدہ منتقل ہوا،، یو اے ای کی وزارت انصاف نے بتایا کہ اس عرصے کے دوران دبئی کے کسٹم ریکارڈ کے مطابق کوئی مشینری جدہ منتقل نہیں ہوئی،، جے آئی ٹی نے چوتھا سوال پوچھا کہ کیا طارق شفیع نے بارہ ملین درہم فہد بن جاسم التانی کو منتقل کیے، اس سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ سنٹرل بینک کے پاس اس رقم کے ٹرانسفر کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے