اسلام آباد: سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز میں فیصلے کے لیے مزید 6 ہفتوں کا وقت دے دیا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سپریم کورٹ سے نیب ریفرنسز کی مدت سماعت میں 4 ہفتے کی توسیع کی درخواست کی تھی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے جج محمد بشیر کی درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث بھی پیش ہوئے اور دلائل دیئے کہ شریف خاندان کے خلاف تینوں ریفرنسز میں شواہد اور گواہان ایک جیسے ہیں، جن میں 75 فیصد چیزیں مشترک ہیں، لہذا ان تینوں ریفرنسز کا ایک فیصلہ ہونا چاہیے، جبکہ اس حوالے سے پہلے بھی درخواست دی جاچکی ہے۔ خواجہ حارث نے مزید کہا کہ جج محمد بشیر شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ دے چکے ہیں اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ معزز جج دیگر ریفرنسز نہیں سن سکتے۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فلیگ شپ ریفرنس میں ٹرانزیکشنز ایک دوسرے سے نہیں ملتیں جبکہ فلیگ شپ اور العزیزیہ کیسز بھی ملتے جلتے نہیں ہیں۔ ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ریفرنسز کی سماعت کے لیے کتنا وقت درکارہے؟ نیب پراسیکیوٹر اعظم تارڑ نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ باقی ریفرنسز میں قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس بھی چل رہاہے اور مفرور ہونے پر انہیں سزا ہوسکتی ہے۔ سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کے فیصلے کے لیے مزید 6 ہفتے کا وقت دے دیا۔ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ اسحاق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس بھی 6 ہفتوں میں ہی مکمل کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 جون کو سماعت کے دوران احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز پر ایک ماہ میں (10 جولائی تک) فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے دی گئی مدت آج ختم ہوگئی، تاہم اب تک صرف ایک (ایون فیلڈ پراپرٹیز) ریفرنس کا فیصلہ ہی سنایا جاچکا ہے، جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس ابھی زیرِ سماعت ہیں، یہی وجہ ہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے مدت سماعت میں توسیع کی درخواست دائر کی گئی۔