نیب ترامیم سماعت: عدلیہ ایگزیکٹو کا اختیار استعمال نہیں کرسکتی: چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے قومی احتساب بیورو (نیب) قوانین میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ ایگزیکٹو کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ غیر قانونی آمدن پر نیب کا اختیار بھی ترامیم میں ختم کر دیا گیا ہے، ایمنسٹی اسکیم صرف کالا دھن سفید کرنے کے لیے ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ نیب ترامیم سے پہلے نیب کو ایمنسٹی اسکیم میں غیر قانون آمدن پر کارروائی کا اختیار تھا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ غیر قانونی آمدن کے احتساب کے دیگر قوانین بھی موجود ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نظام ٹوٹ جائے تو سخت قانون بھی مؤثر نہیں رہتا۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب کی سستی پر سپریم کورٹ نے کرپشن کے معاملات کی تحقیقات کرائی، سپریم کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس معاملے کی تحقیقات جے آئی ٹی سے کروائی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ سب کچھ عدلیہ کو کرنا ہے تو کیا یہ ایگزیکٹو کے اختیار پر تجاویز نہیں ہوگا، کیا ایگزیکٹو کی ناکامی پر عدلیہ سپر رول ادا کر سکتی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو ملک چلانا نہ آئے تو کیا عدلیہ ملک کو چلائے گی، کوئی کہے حکومت مشکوک اور وزیر اعظم متنازع ہے تو عدلیہ حکومت چلائے گی، اس چیز کو کہیں تو روکنا ہوگا۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر عدالت نے قانون سازی کا حکم دیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا بنیادی حقوق کے تحفظ میں اختیارات کی تقسیم کی لکیر عدلیہ عبور کر سکتی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ عدلیہ ایگزیکٹو کے اختیار پر تجاوز نہیں کر سکتی، عدالت ایگزیکٹو کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا کہہ سکتی ہے مگر ایگزیکٹو کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ازخود نوٹس کا اختیار بڑے احتیاط سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے انتظامیہ کے کئی اقدامات کالعدم قرار دیے، اس حوالے سے کئی عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم سے کئی شقوں کو نکال دیا گیا ہے۔عمران خان کے وکیل کو مخاطب کرکے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کا مؤکل کہتا ہے نکالی گئی شقیں دوبارہ بحال کی جائیں، یہ صورت حال ماضی سے مختلف اور منفرد ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نیب ترامیم بنیادی حقوق سے تصادم پر کالعدم ہو بھی جائیں تو پرانا قانون کیسے بحال ہو گا۔
عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کر دی۔