اورنج لائن ٹرین منصوبے کیخلاف درخواستوں پر سماعت میں جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ماہرین کی رپورٹ میں سقم کی نشاندہی کی جائے

جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربینچ نے کیس کی سماعت کی۔ وکیل درخواستگزار کا کہنا تھا کہ اورنج لائن کا معاملہ انجینئرنگ کا نہیں بلکہ تاریخی ورثے کے تحفظ کا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اس بات پر عدالت اور شکایت کنندگان ایک صفحے پر ہیں۔ عدالت بھی تاریخی ورثے کاتحفظ چاہتی ہے۔ ماہرین پرتعصب کاالزام لگانے کی بجائے ان کی رپورٹ میں سقم کی نشاندہی کریں۔ دیکھنایہ ہے کہ شکایت کنندگان کے تاریخی ورثہ کے حوالے سے تحفظات درست ہیں کہ نہیں۔ تحفظات درست نہ ہوئے تو شکایت اٹھا کرپھینک دیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ منصوبے سے متعلق رپورٹس کے غلط ہونے کا تعین کون کرے گا۔ رپورٹس ماہر ہی دیکھ سکتا ہے۔ وکیل احمد حسین کا کہنا تھا کہ حالات کا جائزہ لیےبغیر منصوبے پرکام شروع کردیا گیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آکہنا چاہتے ہیں کہ ٹیسٹ سے پہلے آپریشن شروع کردیا گیا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ مناسب وقت پرآپ کی آنکھیں کیوں نہ کھلیں۔ اس طرح کے منصوبے عوام کے پیسے سے بنتے ہیں۔ کیاعوام کے پیسے کوضائع کردیں۔ بلڈنگ کانظارہ خراب ہورہاہےتوآپ کےمطابق کتنی دور سے بلڈنگ نظر آنی چاہیئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ اورنج لائن کے پورے منصوبے کوختم کردیا جائے۔ کیاصرف تاریخی ورثے کومحفوظ بنانے کے اقدامات اٹھائے جائیں۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا منصوبے میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتے۔ تاریخی عمارتوں کے سامنے میٹروٹریک کوزیرزمین گزاراجائے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ زیر زمین ٹرین کی تھرتھراہٹ زیادہ خطرناک ہوگی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ میٹرو ٹرین کورولرکوسٹر نہ بنائیں۔ زمین سے پینتالیس فٹ اوپرچلنے والی ٹرین کوپینتالیس فٹ زیرزمین لیجانہ ممکن نہیں۔ نوے فٹ کاغوطہ تورولرکوسٹر بھی نہیں لگاسکتا۔ تاریخی ورثہ جتناآپ کا ہے اتنا ہمارا بھی ہے ۔ تاریخی ورثے کونقصان ہواتوبوجھ ہم پربھی ہوگا ۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔