آئین و قانون کی بالادستی ہو تی تو این آر او اور ڈیل کی باتیں نہ ہوتیں: امیر جماعت اسلامی سراج الحق
لاہور :امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ آئین و قانون کی بالادستی ہو تی تو این آر او اور ڈیل کی باتیں نہ ہوتیں ۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں این آر او کو کالاقانون قرار دیا گیاہے ۔ صدر اور وزیراعظم کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ قومی دولت لوٹنے اور اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دولت اکٹھی کرنے والوں کو چھوڑ دیں ۔ مشرف نے اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے قاتلوں ، بھتہ خوروں اور قومی لٹیروں کو چھوڑ کر آئین کا مذاق اڑایا ۔ آئین و قانون سے کھلواڑ کرنے کی اب کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی ۔ حکومت سوئی گیس کی اوور بلنگ کر کے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والوں کا محاسبہ کرے اور آئندہ بل میں لوگوں کو انکے پیسے واپس کیے جائیں ۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے منصورہ میں مختلف وفود سے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ سینیٹر سر اج الحق نے کہاکہ سپریم کورٹ گزشتہ این آر او سے فائدہ اٹھانے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کو بھی طلب کرے ۔ کسی حکومت کو یہ حق نہیں کہ وہ قومی امانتوں میں خیانت کرنے اوراغوا اور قتل کرنے والوں کو معاف کردے ۔ انہوں نے کہاکہ اسٹیٹ بنک نے حکومت کی طرف سے مقامی ذرائع سے قرضہ لینے کے جو اعدادو شمار بتائے ہیں ، وہ تشویشناک ہیں ۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ حکومت کا سارا دارومدار اور کاروبار محض قرضوں کا حصول ہے ۔ حکمران خود کو قرضہ لینے کے سپیشلسٹ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ کوئی خوبی نہیں ، بلکہ قومی عزت و وقار کی نیلامی ہے ۔ حکومت نے ایسے ماہرین معاشیات جمع کر لیے ہیں جو معاشی اصلاحات کر کے قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی بجائے بھکاری بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور اس کو وہ اپنی خوبی سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ کامیاب حکومت وہی ہوتی ہے جو لوگوں کو مچھلی دینے کی بجائے مچھلی پکڑنے کا طریقہ بتا دیتی ہے ۔سینیٹر سرا ج الحق نے کہاکہ حکمران اگر واقعی ملک و قوم کی کوئی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں قرضوں اور خیرات کی بجائے معاشی اصلاحات ، ڈاکومنٹیشن اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی ۔ کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے بے لاگ اور کڑا احتساب کرناہوگا۔ حکومت کو ایسی قانون سازی کرنا ہوگی کہ کسی کرپٹ کو بچ نکلنے کا موقع نہ مل سکے ۔ انہوں نے کہاکہ جب تک آئین و قانون افراد اور شخصیات کے گرد گھومتا رہے گا ، بہتری نہیں آئے گی ۔ تبدیلی اس وقت آئے گی جب قانون سازی ریاست کے لیے ہوگی ۔