جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ نے سیاسی منظر نامے میں ایک بار پھر ہلچل مچا دی

جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ نے سیاسی منظر نامے میں ایک بار پھر ہلچل مچا دی ، جے آئی ٹی نے اپنی 256 صفحات پر مبنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تحقیقات کے ضمن میں وزیراعظم اور ان کے بچوں کو بلایا گیا اور ان کے بیانات سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ ان کے طرززندگی اور معلوم آمدن میں بہت فرق ہے مدعا علیہان تحقیقاتی ٹیم کے سامنے رقوم کی ترسیل کے ذرائع نہیں بتا سکے، بھاری رقوم کو قرض یا تحائف کی صورت میں دینے سے متعلق بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں،، جب حسن نواز اور حسین نواز سے رقوم کے بارے میں دریافت کیا گیا تو وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے،جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا کہ مدعا علیہان کی برطانوی کمپنیاں شدید نقصان میں ہونے کے باوجود بھاری رقوم کی ترسیل میں ملوث تھیں،، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس لیے استعمال ہو رہی تھیں تاکہ ایسا محسوس ہو کہ ان برطانوی کمپنیوں کے کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم کی مدد سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئی ہیں، ترسیلات لندن کی ہل میٹل کمپنی، یو اے ای کی کیپٹل ایف زیڈ ای کمپنیوں کے ذریعے کی گئیں، رپورٹ میں جے آئی ٹی نے شریف خاندان کی منی ٹریل پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا اور کہا ہے کہ مریم نواز نیلسن اور نیسکول کی بینفشری مالک ہیں،
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اکثر کمپنیاں مکمل طور پر فنکشنل نہیں ہیں یا خسارے میں جا رہی ہیں، خراب کارکردگی اور نقصان میں جانے کے باعث چند سالوں کے علاوہ ان کمپنیوں کے منافع کو ظاہر نہیں کیا گیا،، جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ طارق شفیع بی سی سی آئی کے 9 ملین درہم کے ڈیفالٹر تھے، یو اے ای حکومت نے طارق شفیع کے تمام ریکارڈ کو جھٹلایا، جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں قطری شہزادے کی جانب سے سرمایہ کاری کی تفصیلات کو جعلی قرار دیدیاجے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بادی النظر میں 1981ء سے 2002ء کے دوران ٹیکس چوری کیا۔ اس عرصے کے دوران انہوں نے انکم ٹیکس ریٹرنز ہی جمع نہیں کرائے۔ دو ہزار آٹھ اور دو ہزار نو کے درمیان ان کے اثاثوں میں بے پناہ اضافہ ہوا مگر انہوں نے اس عرصے میں اپنے ذرائع آمدن نہیں بتائے۔